افغان خواتین قومی فوج میں اپنی موجودگی بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں جو ایک ایسا شعبہ ہے جس کے بارے میں برسوں سے یہ تصور رہا ہے کہ اس میں صرف مرد ہی جا سکتے ہیں۔
افغان فوجی کی پہلی خاتون جنرل اور چھا تہ بردار خاتول محمدزئی فوج میں بھرتی ہونے کی خواہش مند خواتین کے لیے ایک مثال ہیں۔
وہ گذشتہ تین عشروں سے زیادہ عرصے سے فوج میں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ ایک کمانڈو اور چھا تہ بردار کی حیثیت سے وہ پیراشوٹ کے ذریعے 600 سے زیادہ جمپ لگا چکی ہیں۔ انہیں بڑی تعداد میں ایوارڈز، اسناد، اور تمغے مل چکے ہیں۔
اگر امریکی قیادت کی افواج سن 2001 میں طالبان کو شکست دے کر کابل سے بے دخل نہ کرتیں تو وہ کبھی جنرل نہ بن پاتیں کیونکہ وہ ایک خاتون ہیں۔
اب وہ ایک ایسی افغان خاتون بن چکی ہیں جنہیں جنرل کے عہدے پر پہنچنے کا اعزاز حاصل ہے۔
جنرل خاتول محمدزئی کہتی ہیں کہ جب میں فوجی وردی میں شہر میں نکلتی ہوں تو لوگ مجھے بڑی شفقت، ستائش اور محبت کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ بہت سے نوجوان مجھے کہتے ہیں کہ وہ بھی کمانڈو بننا چاہتے ہیں۔
افغانستان میں کسی خاتون کے لیے فوج میں بھرتی ہونا آسان کام نہیں ہے کیونکہ انہیں اپنے خاندان کے افراد اور مرد ساتھیوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھرتی ہونے کے بعد انہیں ترقیاں نہیں ملتیں۔ انہیں آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ملتے، انہیں تربیت کے لیے نہیں بھیجا جاتا اور ان کے ساتھ سیکیورٹی کے مسائل لگے رہتے ہیں ۔
لیکن اس وقت کابل میں قائم مارشل فہیم ملڑی اکیڈمی میں 103 خواتین کیڈٹ جنگ زدہ ملک میں معاشرتی رویوں اور سوچ کو بدلنے کے عزم کے ساتھ فوجی تربیت حاصل کر رہی ہیں۔
افغان نیشنل آرمی کی ایک خاتون کیڈٹ گلا لئی کہتی ہیں کہ میرا شروع سے ہی یہ عزم رہا ہے کہ میں بھی خاتول کی طرح ایک جنرل بنوں اور اپنے ملک کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے کام کروں۔
فوجی اکیڈمی میں خاتون اور مرد کیڈٹوں کو الگ الگ تربیت دی جاتی ہے۔ دونوں کو تربیت کے دوران جسمانی مشقت، ہتھیاروں کی تربیت اور فوری طبی امداد فراہم کرنے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔
جنرل خاتول یہ بات زور دے کر کہتی ہیں کہ فوج کے دروازے خواتین پر بھی کھولے جائیں اور اس شعبے میں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
افغانستان کی قومی فوج میں اس وقت 17 سو خواتین کام کر رہی ہیں جو کل فوج کی محض ایک فی صد تعداد ہے۔