افغانستان کے شمالی شہر قندوز پر طالبان عسکریت پسندوں کے حملے کو ناکام بنائے جانے کے دو ہفتوں کے بعد اس شہر کے مکین اپنی زندگی کو معمول پر لانے کے لیے کوشاں ہیں۔
افغان فورسز نے نیٹو افواج کی مدد سے اکتوبر کے اوائل میں طالبان کے قندوز پر قبضہ کرنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔
اگرچہ طالبان اس شہر پر اُس طرح قبضہ کرنے میں ناکام رہے، جیسا کہ انہوں نے 2015ء میں کچھ دنوں یہاں قبضہ کر لیا تھا، تاہم حالیہ لڑائی سے شہر کے کئی تجارتی مراکز تباہ ہو گئے اور اب یہاں کے مکین اس لڑائی کی وجہ سے ضروریات زندگی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔
قندوز کے ایک مکین شفیق اللہ نے شکوہ کیا کہ ’’ایک روٹی کی قیمت پانچ افغانی سے بڑھ کر 30 افغانی تک پہنچ گئی ہے۔۔۔۔ اور ایک لیٹر پیڑول اب 300 افغانی میں ملتا ہے۔‘‘
اب جب کہ معمولات زندگی بحال ہو رہے ہیں تو شہر کا مرکزی بازار پیدل چلنے والے سے بھرا ہوا ہے، جہاں بھنی ہوئی مکئی اور دیگر ایسی اشیاء فروخت کرنے والوں نے فٹ پاتھ پر ہی اپنے ٹھیلے لگا رکھے ہیں۔
شہر کی گلیوں میں اگر سرسری نگاہ دوڑائی جائے تو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہر چیز معمول کے مطابق ہے، تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ خوف اور بے یقینی کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔
لیکن بعض کا کہنا ہے کہ اُنھیں حکومت پر اعتماد ہے کہ وہ اُنھیں طالبان سے محفوظ رکھے گی۔
مقامی شہری محمد ادریس نے دری زبان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب بھی (طالبان) چاہیں وہ اس وقت آ سکتے ہیں۔‘‘
اُن کے بقول ’’شہر کو آنے والے تمام راستے کھلے ہیں، رات کے وقت میرے گھر کو خطرہ ہوتا ہے، یہاں کوئی بھی نہیں جو ان (طالبان) کو روک سکے۔ یہاں کوئی پولیس نہیں ہے، انہیں شہر میں داخل ہونے سے کوئی بھی روکنے والا نہیں ہے۔‘‘
ان کی تشویش بظاہر درست معمول ہوتی ہے کیوں ایسا نظر آتا ہے کہ زیادہ تر سکیورٹی اہلکار، (اپنی) گاڑیوں اور ٹینکوں کے ساتھ شہر کے مرکز میں موجود ہیں جب کہ شہر کے نواح میں ان کی بہت کم تعداد تعینات ہے۔
گزشتہ جمعہ کی دوپہر کو وائس آف امریکہ کی ٹیم جس سڑک کے راستے قریبی صوبے بغلان سے قندوز شہر میں پہنچی تو اس پر بھی بظاہر سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی بہت کم تھی۔
ہر چند کلو میٹر کے فاصلے پر تباہ ہونے والے ٹرک اور ٹریلر نظر آئے جو طالبان کے حملوں کی غمازی کر رہے تھے، اس کے علاوہ ان حملوں میں تباہ ہونے والی پولیس چوکیاں خالی تھیں۔
طالبان عسکریت پسندوں کے بارے میں عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے قندوز شہر کی طرف جانے والی دیگر سڑکوں پر کئی مقامات پر غیر قانونی چوکیاں قائم کر رکھی ہیں، خاص طور پر الصبح اور تاریکی پھیلنے کے بعد شہر کے اندر اور یا باہر جانے والی ٹریفک کو روکتے ہیں۔
ایسا کرنا طالبان کے لیے بظاہر آسان ہے، قندوز شہر کے اردگرد کے علاقوں میں اب بھی طالبان کثیر تعداد میں موجود ہیں جہاں کے لوگ ان سے ہمدردی رکھتے ہیں۔
ان غیر قانونی چوکیوں کا مطلب یہ ہے کہ چند طالبان عسکریت پسند قریبی گاؤں سے پیدل یا اپنی موٹر سائیکل پر سوار ہو کر سڑک تک پہنچتے ہیں اور اپنی ’’اے کے 47 رائفلز‘‘ کو لہرا کر ٹریفک کو روکتے ہیں۔
افغان حکومت اور ان کے نیٹو اتحادی پر اعتماد ہے کہ طالبان قندوز شہر پر قبضہ نہیں کر سکتے ہیں تاہم اس کی وجہ سے مقامی لوگوں کے اعتماد کو بحال نہیں کیا جا سکتا ہے۔
موسی جان نے قندوز میں روزمرہ زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’لوگوں کی دکانیں تباہ ہو گئی ہیں، کاروباری مراکز بند ہیں، لوگ خوف کے فضا میں رہ رہے ہیں۔‘‘
اُن کے بقول ’’لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مزید حملے ہوں گے اور شہر پر ایک بار پھر قبضہ ہو جائے گا۔‘‘