افغانستان سے نیٹو افوج کی واپسی کے لیے 2014ءتک کا وقت دیا گیا ہے۔ مگر یہ حتمی ہدف دیے جانے کے باوجود نیٹو ممالک ، افغانستان کی حکومت اور مبصرین فوجی انخلاء شروع ہونے سے پہلے افغانستان میں چند بنیادی تبدیلیاں دیکھنا چاہتےہیں ۔
2014ءمیں سیکورٹی کی ذمہ داری کی منتقلی کےلیے نیٹو ، امریکہ اور افغان حکومت کی ترجیحات میں سرِ فہرست افغان نیشنل آرمی کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ افغانستان کی سیکیورٹی کی ذمہ داری سنبھال سکیں۔
افغانستان کے وزیرِ داخلہ بسم الله خان محمدی جو گزشتہ دنوں واشنگٹن میں موجود تھے ، کہتے ہیں کہ منتقلی سے پہلے افغان سیکورٹی فورسز کی تعداد بڑھا کر انہیں بہترین تربیت دی جانی چاہیے۔ افغان سیکورٹی فورسز کی کمزوریوں کو دور کیا جائے، ان کے ہتھیاروں میں اضافہ کیا جائے ۔ اور ان کی افادیت کو بڑھانے کے لیے انہیں جدید ترین اسلحہ فراہم کیا جائے ۔ ان کے مطابق ذمہ داری کی منتقلی سیاسی فیصلہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ منتقلی افغانستان کے موجودہ حالات کو ذہن میں رکھ کر کی جانی چاہیے اور یہ منتقلی ناقابل واپسی ہو ۔
مبصرین کے مطابق صرف سیکیورٹی فورسز کو تربیت دینے اور مسلح کرنے سے تبدیلی نہیں آئے گی۔ مارٹن ہاورڈ نیٹو کے اسسٹنٹ سیکٹری جنرل فار آپریشنز ہیں وہ کہتے ہیں کہ نیٹو صرف افغان آرمی اور پولیس کو تریبت دینے پر کام نہیں کر رہی بلکہ ایک ایسا سسٹم بنا رہی ہے کہ آرمی اور پولیس کا سٹرکچر مضبوط ہو ، انہیں اپنی ذمہ داریوں کا علم ہو اور وہ جوابدہ ہوں۔
وہ کہتے ہیں کہ افغان نیشنل آرمی اور افغان نیشنل پولیس کو بناتے ہوئےنیٹو کا یہ تجربہ رہا ہے کہ ان کی ٹرینگ اور تنخواہیں اچھی رکھی جائیں ، کیونکہ یہ پرائیوٹ ملیشیا یا آرمی کے ابھرنے کو روکنے کے لیے بہترین طریقہ ہے۔ اس لیے نیٹو اس چیز پر بہت توجہ دے رہی ہے کہ ایک آئینی اور ریاستی آرمی تشکیل دی جائے۔
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ افغانستان کی معیشت اور سیاست نیٹو افواج کی موجودگی سے جڑی ہے۔ اس لیے نیٹو افواج کا انخلا افغانستان کے لیے سیکیورٹی کے علاوہ دیگر چیلنجز بھی پیدا کرے گا۔ مارٹن ہاورڈ کے مطابق یہ افغانستان کے لیے بہت مشکل ہو گا کہ آنے والے بہت سے برسوں تک وہ سیکورٹی فورسز سمیت اپنے مکمل اخراجات اٹھا سکے۔
وہ کہتے ہیں کہ عالمی برادری کو اس کا اندازہ ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ افغانستان سے ملٹری کی مصروفیات کم کرنے کے لیے یہ اخراجات اٹھانے ہوں گے۔ ان کے مطابق افغانستان میں معاشی ترقی کے ایسے پروگرام لانے ہوں گے جس کی بدولت وہاں کی حکومت اس قابل ہوجائے کہ وہ خود اپنے وسائل سے اپنے حکومتی اخراجات پورے کر سکے۔
زہرہ بہمان کابل میں آباد ایک سماجی کارکن ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ افغان عوام 2014ءتک اور بہت سی تبدیلیاں دیکھنے کے خواہشمند ہوں گے۔ وہ یہ توقع کرتی ہیں کہ زندگی کی بنیادی سہولتوں کے حصول کے لیے حکومت سے توقع کر سکیں گے۔ جیسے صحت، قانون اور انصاف، تعلیم کی فراہمی اور دیگر بنیادی ضروریات ۔ افغان عوام یہ بھی چاہیں گی کہ حکومت سے باہر بھی سیاسی نظام مظبوط ہو تاکہ 2014ءکے افغان صدارتی انتخابات میں مضبوط امیدواروں کو میدان میں لا سکیں اور ایک ایسا نظام بنا سکیں کہ وہ سب دوبارہ نہ ہو جو افغان حکومت کی زیرِ نگرانی گزشتہ انتخابات میں ہوا۔
نیٹو اور امریکہ 2014ءتک افغان آرمی کی تعداد تین لاکھ سے اوپر لے جانا چاہتے ہیں۔ ماہرین یہ امید کرتے ہیں کہ افغان نیشنل آرمی اس وقت تک کم سے کم کچھ علاقوں کی سیکیورٹی سنبالنے کے قابل بن جائے گی۔ مبصرین اس اندیشے کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ اگر 2014ءمیں نیٹو افواج کے انخلاء تک افغان معاشرے میں ایسی مثبت تبدلیاں نہ آئیں جو عوام کو مطمئن کر سکیں تو افغانستان پھر سے خانہ جنگی کی طرف لوٹ سکتا ہے۔