افغانستان کی حکومت طالبان اور شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف لڑائی میں امریکہ سے مزید فورسز کا متمنی ہے۔
یہ بات افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی نے منگل کو واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک میں بات کرتے ہوئے کہی۔
انھوں نے افغانستان میں اعلیٰ ترین امریکی کمانڈر جنرل جان نکولسن کے اس حالیہ مطالبے کا خیر مقدم کیا جس میں انھوں نے جنگ سے تباہ حال ملک میں شدت پسندوں کے خاتمے کے لیے مزید امریکی فورسز یا پھر اتحادیوں سے معاونت بڑھانے کی بات کی تھی۔
تاحال ٹرمپ انتظامیہ نے اس بارے میں کوئی نہیں بیان دیا ہے کہ کیا وہ مزید امریکی فورسز افغانستان بھیجے گی۔ اس وقت تقریباً 8400 امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں جو دہشت گردی کے خلاف مقامی فورسز کی تربیت اور معاونت فراہم کر رہی ہیں۔
رواں ماہ کابل میں ایک بڑے فوجی اسپتال پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے تناظر میں افغان وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان کو اپنی "فوجی کمی" کے معاملات کو بہتر بنانے کے لیے امریکہ کی مدد کی ضرورت ہے، جس میں ان کے بقول تربیت، زمینی اور فضائی دفاع کی صلاحیت، سراغ رسانی اور انٹیلی جنس میں تعاون شامل ہے۔
صلاح الدین ربانی نے کہا کہ "ہمیں یقین ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زیر قیادت نئی امریکی انتظامیہ اسٹریٹیجک بنیاد پر (ہمارے ساتھ) کام اور تعاون جاری رکھے گی۔"
حال ہی میں روس نے بھی افغانستان میں امن سے متعلق مشاورتی عمل شروع کیا ہے جس کے بارے میں ربانی کا کہنا تھا کہ روس 12 ملکوں پر مشتمل ایک کانفرنس بھی منعقد کرنے جا رہا ہے جس میں امریکہ کو بھی دعوت دی گئی لیکن وہ نہیں جانتے کہ واشنگٹن اس میں شریک ہو گا یا نہیں۔ محکمہ خارجہ یہ کہہ چکا ہے کہ تاحال اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔
افغان وزیر کا کہنا تھا کہ یہ اجلاس فروری میں روس، چین، پاکستان، افغانستان، ایران اور بھارت کے نمائندوں کے درمیان اس بارے میں ہونے والی ملاقات کا ہی تسلسل ہے۔ ان کے بقول وہ نہیں سمجھتے کہ اس میں طالبان کو مدعو کیا جائے گا۔
ربانی نے کہا کہ روس اور ایران نے کابل کو بتایا ہے کہ وہ طالبان سے رابطے میں رہے ہیں تاکہ انھیں مذاکرات کی میز پر لانے کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ یہ دونوں ملک طالبان کو کسی اور طرح کی مدد فراہم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
افغان وزیر نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کو ایک بار پر مختلف ملکوں کے درمیان تعاون سے مشروط کرتے ہوئے کہا کہ طالبان اس وقت امن کی کوشش نہیں کریں گے جب کہ پاکستان اپنی سرزمین پر "دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں" کے خلاف کارروائی نہیں کرتا۔
افغانستان یہ الزام عائد کرتا ہے کہ دہشت گرد عناصر افغان علاقوں میں تخریبی کارروائیوں کے لیے پاکستان کی سرزمین استعمال کر رہے ہیں اور پاکستان ان کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ نہیں۔
تاہم اسلام آباد ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پاکستان نے اپنے ہاں تمام دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی شروع کر رکھی ہے لیکن دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے اسے افغانستان کی طرف سے درکار تعاون حاصل نہیں ہو رہا۔