افغانستان میں تعینات اعلیٰ ترین امریکی کمانڈر نے کہا ہے کہ روس، پاکستان اور ایران جنگ سے تباہ حال اس ملک میں اپنے اپنے مقاصد کے لیے کوشاں ہیں جس سے ان کے بقول دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف لڑائی پیچیدہ ہو رہی ہے۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جنرل جان نکولسن کا کہنا تھا کہ "ہمیں بیرونی عناصر پر تشویش ہے۔"
روس نے 1979ء میں افغانستان میں مداخلت کا آغاز کیا لیکن ایک دہائی تک یہاں برسرپیکار رہنے کے بعد اسے واپس جانا پڑا۔ یہ ملک اب پھر خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے کوشاں ہے اور آئندہ ہفتے ہی اس نے افغانستان سے متعلق چھ فریقی مذاکرات کا اہتمام بھی کر رکھا ہے جس میں امریکہ شامل نہیں۔
جنرل نکولسن کو روس کے طالبان کے ساتھ رابطوں پر پریشانی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ "روس طالبان کو جائز قرار دینے اور ان کی حمایت کرتا رہا ہے۔۔۔دریں اثناء طالبان دہشت گردوں کو معاونت فراہم کرتے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ روس طالبان اور منشیات کی تجارت سے وابستہ دہشت گردی کی حمایت کر رہا ہے۔"
ماسکو طالبان کی مدد کرنے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ اس گروپ کے ساتھ انھیں امن مذاکرات میں لانے کے لیے رابطے میں ہے۔
جنرل نکولسن کا بھی کہنا تھا کہ طالبان میں ایسے عناصر ہیں جو ملک میں حقیقت پسندانہ امن کے بارے میں سوچ رکھتے ہیں۔ "ان کے بہت سے راہنما افغانوں کے لیے بہتر زندگی دیکھتے ہیں۔"
امریکی کمانڈر کا کہنا تھا کہ دوسری ایران مغربی افغانستان میں انتہا پسندوں کی حمایت کر رہا ہے۔
"یہ صورتحال روس کے معاملے سے زیادہ پیچیدہ ہے۔" ان کے بقول ایران اور افغانستان میں "ایک تعلق کی ضرورت ہے۔"
ان دونوں کے درمیان تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ افغان اقتصادی سرگرمیوں میں کمی بھی دیکھی گئی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ حالیہ دنوں میں خطے سے متعلق اپنی نئی پالیسی کے بارے میں پاکستان اور افغانستان کے اعلیٰ عہدیداروں سے رابطے بھی کر چکی ہے۔ اس نے اسلام آباد کو افغان سرحد سے ملحقہ اپنے قبائلی علاقوں میں دہشت گرد گروپوں کے خلاف مزید کارروائیوں کے لیے بظاہر دباؤ بھی ڈالا ہے۔
جنرل نکولسن کا کہنا تھا کہ "ہم پاکستان سے تمام دہشت گردوں کے خلاف تعاون چاہتے ہیں۔ ہمیں پاکستان میں بیرونی (دہشت گردوں کی) پناہ گاہوں پر ڈباؤ ڈالنا ہے۔"
انھوں نے کہا کہ دہشت گردوں کا خاتمہ خود پاکستان کے لیے اس کے ہاں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں کمی لائے گا۔
"ہم سب پاکستان کے رویے میں تبدیلی کی امید کرتے ہیں۔ یہ خود پاکستان کے مفاد میں ہے۔"
پاکستان یہ کہتا آ رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے عزم پر قائم ہے اور اپنے ہاں تمام دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کر رہا ہے۔