گزشتہ ایک سال میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں آنے والی سر دمہری کی فضا ابھی قائم ہے مگر دونوں ممالک ان میں بہتری کے لئے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔چند ہفتے پہلےامریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کے ایک بیان سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں امن کے لئے پاکستان کے کرادر کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔
اس ماہ کے شروع ٕ میں افغان اور پاکستانی راہنما ؤں کے درمیان افغان مسئلے کے حل کے لئے استنبول میں مذاکرات ہوئے ۔ واشنگٹن میں جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اسکول آف ایڈونسڈ انٹرنیشنل اسٹڈیزمیں ایک لیکچر کے دوران پاکستان کے صحافی اور تجزیہ کار نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ افغانستان، پاکستان اور امریکہ جب تصفیے کے بنیادی نکات پر متفق ہوں گےتو علاقائی سیکیورٹی فریم ورک کی تشکیل کے لئے بات آگے بڑھے گی۔
ان کا کہناتھا کہ امریکہ نے اب سرکاری سطح پر تسلیم کر لیا ہے کہ افغانستان میں امن کے لئے جو فریم ورک بھی بنے گا اس میں پاکستان کا کلیدی کردار ہوگا۔ اور جیسے جیسے 2014ءقریب آرہا ہے پاکستانی فوج کی پوزیشن مضبوط ہو رہی ہے۔
جنوبی ایشیائی امور کے امریکی ماہر والٹر اینڈرسن کہتے ہیں کہ اب امریکہ کے پاس پاکستان پر دباؤ ڈالنے کےطریقوں کی افادیت کم ہوئی ہے۔ان کا کہناہے کہ امریکہ کے اندرونی سیاسی حالات کی وجہ سے انتظامیہ پر اخراجات کم کرنے کے لئے شدید دباؤ ہے جس کی وجہ سے وہ ایسی بہت سی چیزیں کرنے کو تیار ہے جن سے پاکستانی فوج کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے۔
مگر اس کے باوجود نیٹو کے لئے امریکہ کے سابق سفیرکرٹ والکراب بھی سمجھتے ہیں کہ افغانستان سے افواج کے انخلا ءکے لئے کوئی تاریخ طےکرنا بہت بڑی غلطی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کوئی ایک تاریخ متعین کرنا غلط ہے کیونکہ ہمیں یہ بھی تو معلوم نہیں کہ تب تک افغان فورسز سیکیورٹی کے انتظامات سنبھالنے کے قابل ہونگی یا نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم طالبان کو کہہ رہے ہیں کہ کچھ دیر انتظار کریں ۔ اور ان لوگوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں ان لوگوں سے دور رہیں جو نئے افغانستان کی تعمیر میں مصروف ہیں اس لئے کہ ہم چلے جائیں گے اور طالبان واپس آجائیں گے۔ تو انخلا ءکی تاریخ متعین کرنا انتہائی کمزور کرنے والی بات ہے۔
واشنگٹن میں اب یہ بحث بھی شروع ہوگئی ہے کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلا ءکے بعد وہاں کیا صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ غیر مستحکم افغانستان کسی کے مفاد میں نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان، افغانستان اور امریکہ ہر گز نہیں چاہتے کہ افغانستان میں خانہ جنگی ہو۔لیکن اگر پاکستان اور امریکہ اپنی کوششوں میں ناکام ہوتے ہیں تو افغانستان کا مسقبل خانہ جنگی ہے۔ جو سب کے لئے خطرناک ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ جیسے جیسے تصفیے کا عمل آگے بڑھے گا امریکہ اور پاکستان کے درمیان نہ صرف اعتماد بڑھے گا بلکہ پاکستان کے لئے امریکی امداد بھی بحال ہو جائے گی ۔