افغانستان میں حکام نے بتایا ہے کہ افغان امن کونسل کے ایک سینیئر رکن ارسلا رحمانی کو نا معلوم مسلح افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
افغان پولیس نےکہا ہے کہ اعلیٰ امن کونسل کے سینیئر رکن مولوی ارسلا رحمانی پر قاتلانہ حملہ اُس وقت کیا گیا جب وہ اپنی گاڑی میں اراکین پارلیمان اورسرکاری عہدے داروں کے ساتھ ملاقات کے لیے کابل کے سفارتی مرکز کی طرف جا رہے تھے۔
پولیس کے تحقیقاتی سیل کے سربراہ جنرل محمد ظاہر نے بتایا ہے کہ مقتول کی گاڑی دارالحکومت کے مصروف چوک پر ٹریفک کے ہجوم میں پھنسی ہوئی تھی جب قریب کی ایک گاڑی سے اُن پر فائر کیا گیا۔
ان کے بقول ڈرائیور کو فوری طور پر اس بات کا ادراک نا ہو سکا کہ مولوی ارسلا رحمانی قتل کیے جا چکے ہیں۔ جنرل ظاہر نے بتایا کہ واقعہ کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں لیکن تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔
نیشنل ڈائریکٹریٹ فار سکیورٹی (این ڈی ایس) کے ترجمان شفیق اللہ طاہری نے کابل میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ادارے کے اعلیٰ عہدیداروں نے مقتول افغان رہنما کو ذاتی طور دو مرتبہ آگاہ کیا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔
’’ان معلومات کی بنا پر بعد مولوی رحمانی کے گھر کے آس پاس حفاظتی انتظامات میں اضافہ کر دیا گیا تھا جس سے ان پر حملے کی کوششوں کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ لیکن آج افغانستان کے دشمنوں نے گھات لگا کر انھیں بیچ سڑک میں حملہ کر کے انھیں شہید کر دیا۔‘‘
اگرچہ اعلٰی امن کونسل طالبان باغیوں کے ساتھ مصالحت کی کوششوں میں اب تک کوئی خاص پیش رفت نہیں کر سکی ہے لیکن اس کے ایک اور سینیئر رکن کی ہلاکت کا تازہ واقعہ افغانستان میں امن و مفاہمت کی کوششوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔
مولوی ارسلا رحمانی ماضی میں طالبان کے دور حکومت میں وزیر تعلیم بھی رہ چکے تھے اور کرزئی حکومت کے ساتھ مفاہمت کے بعد ان کا نام اقوام متحدہ کی مطلوب افراد کی فہرست سے حال ہی میں خارج کیا گیا تھا۔
طالبان کے ایک ترجمان نے اس قتل سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
افغانستان کی اعلٰی کونسل صدر حامد کرزئی نے تقریبا دو سال قبل تشکیل دی تھی اور اس کا مقصد جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان کے ساتھ امن بات چیت کو فروغ دینا تھا۔
لیکن گزشتہ سال ستمبر میں اس 70 رکنی کونسل کے سربراہ سابق صدر پروفیسر برہان الدین ربانی کو بھی طالبان کا پیغام رساں بن کر آنے والے ایک خودکش بمبار نے دھماکا کر کے ہلاک کردیا تھا۔ طالبان جنگجوؤں نے اس واقعہ سے بھی لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔
افغان حکام نے الزام لگایا تھا کہ پروفیسر ربانی کے قتل کی سازش ہمسایہ ملک پاکستان کی سرزمین پرتیار کی گئی تھی لیکن پاکستانی رہنماؤں نے ان الزامات کو قیاس آرائیوں پر مبنی قرار دیتے ہوئے یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ مقتول افغان لیڈر پاکستان کے ہمدرد اور ایک اچھے دوست تھے۔
اُدھر پاکستانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں مولوی ارسلا رحمانی کے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے افغان حکومت اور عوام کے ساتھ اس سانحہ پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔
بیان کے مطابق دونوں ملکوں کو دہشت گردی کے مشترکہ خطرے کا سامنا ہے اور پاکستان اس لعنت کے خاتمے کے لیے افغانستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم پر قائم ہے۔
وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کا ایک بنیادی قومی مفاد ہے اور وہ افغانوں کی قیادت میں امن ومفاہمت کی کوششوں کے لیے اپنی حمایت جاری رکھے گا۔