رسائی کے لنکس

کابل:بم دھماکے میں سابق افغان صدر برہان الدین ربانی ہلاک، امریکہ کی مذمت


پروفیسر برہان الدین ربانی (فائل فوٹو)
پروفیسر برہان الدین ربانی (فائل فوٹو)

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں منگل کی شام ہونے والے ایک بم دھماکے میں سابق افغان صدر برہان الدین ربانی ہلاک ہوگئے ہیں۔

پولیس حکام نے بتایا کہ برہان الدین ربانی کے گھر پر ہونے والا بم حملہ بظاہر خود کش حملہ آور کی کارروائی ہے۔ کابل پولیس کے ایک اعلیٰ افسر جنرل ظہیر کے مطابق خود کش حملہ آور امن مذاکرات کے بہانے پروفیسر ربانی کے گھر آیا تھا اور اسنے دھماکہ خیز مواد اپنی پگڑی میں چھپا رکھا تھا۔

پروفیسر برہان الدین ربانی کے قتل کے بعد انکی رہائش گاہ کے باہر کا منظر
پروفیسر برہان الدین ربانی کے قتل کے بعد انکی رہائش گاہ کے باہر کا منظر

امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے ربانی کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس بزدلانہ حملے کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں امریکہ افغان حکومت کی مدد کرے گا۔ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں ہلری کلنٹن نے کہا کہ امریکہ جانتا ہے کہ کچھ لوگ امن اور مفاہمت کے عمل کو نقصان پہنچانے کے لیے سب کچھ کرسکتے ہیں۔

پروفیسر برہان الدین ربانی افغانستان میں جاری مصالحت کے لیے قائم کی گئی اعلیٰ امن کونسل کے سربراہ بھی تھے۔ انکا تعلق شمالی افغانستان سے تھا اور وہ تاجک النسل تھے۔ وہ افغانستان کے دو بار صدر رہ چکے تھے۔ انکی عمر 71 سال تھی۔ امن کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے انکی ذمہ داری طالبان سے مذاکرات تھی۔ مبصرین اس قتل کو امن مذاکرات کے عمل پر ایک شدید ضرب قرار دے رہے ہیں۔

اس حملے میں کم ازکم تین افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ یہ حملہ کابل میں امریکی سفارت خانے اور نیٹو ہیڈ کوارٹرز پر طالبان کے حملے کے ایک ہفتے بعد ہوا ہے۔

افغان صدر حامد کرزئی نے اس قتل کی شدید مذمت کی ہے۔ صدر کرزئی جو اس وقت میں نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے موجود ہیں، صدر کرزئی کے ترجمان کے مطابق اپنا دورہ مختصر کرکے واپس کابل پہنچ رہے ہیں۔

پاکستان کے صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔

منگل کو کیے گئے خود کش حملے میں ہلاک ہونے والے سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کابل حکومت کی جانب سے قائم کردہ اعلیٰ سطحی امن کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے طالبان کے ساتھ گزشتہ دس برسوں سے جاری جنگ کا سیاسی حل تلاش کرنے کے ذمہ دار تھے۔

افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے مذکورہ کونسل اکتوبر 2010ء میں قائم کی تھی۔ کل 68 اراکین پر مشتمل اس کونسل میں قبائلی سردار، مذہبی رہنما اور سیاست دان شامل ہیں جنہیں ان جنگجوں سے رابطے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جو ہتھیار پھینک کر سیاسی عمل میں شریک ہونے پر آمادہ ہوں۔

استاد ربانی کی جماعت 'جمعیتِ اسلامی' ان جہادی تنظیموں میں شامل تھی جنہوں نے 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جنگ لڑی تھی۔

سن 1992ء میں سوویت روس کی حمایت سے قائم افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کے بعد استاد ربانی کو مجاہدین کی حکومت کا صدر منتخب کرلیا گیا تھا۔ تاہم یہ حکومت اپنے آغاز سے ہی کمزور اور متزلزل ثابت ہوئی اور مختلف جہادی گروپوں کے مابین طاقت اور اقتدار کے حصول کی کوششوں کے باعث افغانستان جلدہی خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔

کئی برس جاری رہنے والی اس خانہ جنگی کے نتیجے میں ہزاروں افغان باشندوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ استاد ربانی کے دورِ صدارت کا خاتمہ 1996ء میں طالبان کے ابھرنے کے نتیجے میں ہوا۔

برہان الدین ربانی بعد ازاں طالبان کے خلاف تشکیل پانے والے 'شمالی اتحاد' کے سربراہ بن گئے تاہم اتحاد پر ان کی گرفت برائے نام تھی۔ بعد ازاں شمالی اتحاد نے 2001ء میں مغربی افواج کے ساتھ مل کر کابل پر سے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کیا۔

استاد ربانی کے داماد اور 'شمالی اتحاد' کے اہم ترین کمانڈر احمد شاہ مسعود بھی 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں سے محض دو روز قبل ایک خود کش حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ صحافیوں کے بھیس میں آنے والے خودکش حملہ آور وں کا مبینہ تعلق القاعدہ سے تھا جنہوں نے 9 ستمبر 2001ء کو احمد شاہ مسعود کے نزدیک پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑالیا تھا۔

اقوام متحدہ کے افغانستان میں امدادی ادارے یواین اے ایم اے نے بھی پروفیسر ربانی کے قتل کی شدید سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔

XS
SM
MD
LG