نیویارک —
انسانی حقوق کے دفاع کے لیے نیویارک میں قائم ایک بین الاقوامی تنظیم نے طالبان کے ساتھ افغان حکومت کے امن مذاکرات میں اُن باغی رہنماؤں کو عام معافی دینے کے اعلان کی مخالفت کی ہے جو سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر برائے ایشیاء بریڈ ایڈمز نے پیر کو جاری کیے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جنگی جرائم اور دیگر خلاف ورزیوں سے متاثرہ خاندانوں کو انصاف کی فراہمی کا افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات سے تعلق نہیں ہونا چاہیئے۔
’’افغانستان کے شہریوں کو حصول انصاف اور امن میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور نا کیا جائے۔‘‘
افغانستان کی اعلٰی امن کونسل کے سربراہ صلاح الدین ربانی نے گزشتہ ہفتے کابل میں اعلان کیا تھا کہ حکومت کے ساتھ امن بات چیت میں شامل ہونے والے طالبان رہنماؤں کو معافی دینے کے علاوہ ان کے نام اقوام متحدہ کی تعزیراتی فہرست سے بھی خارج کر دیے جائیں گے۔
حکومتِ پاکستان نے رواں ماہ کے اوائل میں افغان امن کونسل کی درخواست پر اپنے ہاں قید 13 افغان طالبان رہنماؤں کو رہا کردیا تھا۔
پاکستانی جیلوں میں اس وقت بھی درجنوں طالبان رہنما قید ہیں اور پاکستان کی قیادت نے اس ماہ صلاح الدین ربانی کے ساتھ اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات میں یقین دلایا تھا کہ ان افغان قیدیوں کو بھی جلد رہا کر دیا جائے گا۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ ’’نسل کشی، جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور انسانی حقوق کی دیگر سنگین خلاف ورزیوں کو قانونی کارروائی کے بغیر معاف کرنا درحقیقت بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے‘‘۔
ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر برائے ایشیاء بریڈ ایڈمز نے پیر کو جاری کیے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جنگی جرائم اور دیگر خلاف ورزیوں سے متاثرہ خاندانوں کو انصاف کی فراہمی کا افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات سے تعلق نہیں ہونا چاہیئے۔
’’افغانستان کے شہریوں کو حصول انصاف اور امن میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور نا کیا جائے۔‘‘
افغانستان کی اعلٰی امن کونسل کے سربراہ صلاح الدین ربانی نے گزشتہ ہفتے کابل میں اعلان کیا تھا کہ حکومت کے ساتھ امن بات چیت میں شامل ہونے والے طالبان رہنماؤں کو معافی دینے کے علاوہ ان کے نام اقوام متحدہ کی تعزیراتی فہرست سے بھی خارج کر دیے جائیں گے۔
حکومتِ پاکستان نے رواں ماہ کے اوائل میں افغان امن کونسل کی درخواست پر اپنے ہاں قید 13 افغان طالبان رہنماؤں کو رہا کردیا تھا۔
پاکستانی جیلوں میں اس وقت بھی درجنوں طالبان رہنما قید ہیں اور پاکستان کی قیادت نے اس ماہ صلاح الدین ربانی کے ساتھ اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات میں یقین دلایا تھا کہ ان افغان قیدیوں کو بھی جلد رہا کر دیا جائے گا۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ ’’نسل کشی، جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور انسانی حقوق کی دیگر سنگین خلاف ورزیوں کو قانونی کارروائی کے بغیر معاف کرنا درحقیقت بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے‘‘۔