طالبان کے معاون سربراہ، سراج الدین حقانی نے کہا ہے کہ آپس کی بد اعتمادی کے باوجود، عسکریت پسند گروپ امن سمجھوتے کو سربلند رکھنے کے معاملے پر مکمل طور پر پُرعزم ہے، جس کی وجہ سے افغانستان میں لڑائی بند کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ دستخط کا معاملہ تقریباً قریب تر ہے۔
سراج الدین حقانی مبینہ طور پر پاکستان سے خودکش بم حملوں اور سرکش کارروائیوں کے احکامات صادر کرنے کا شہرہ رکھتے ہیں۔
جمعرات کو نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں شدت پسند کمانڈر نے لکھا ہے کہ ’’طویل لڑائی نے ہر ایک پر تباہ کن اثرات ڈالے ہیں۔ لڑائی سے ہر ایک بیزار ہو چکا ہے‘‘۔
حقانی نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ طالبان سمجھوتے کی ممکنہ کامیابی اور اس کامیابی کو یقینی بنانے کا سہرا امریکہ کے سر ہوگا کہ اس میں درج سب شقوں پر ’’برابری کی بنیاد پر اصولوں کی پاسداری‘‘ کا اطلاق ہو ۔
سراج الدین حقانی نے، جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ ان کے مبینہ طور پر پاکستان کے قومی سلامتی کے ادارے، انٹر سروسز انٹیلی جینس سے قریبی مراسم ہیں، کہا ہے کہ ’’اُسی صورت میں ہی ہم مکمل اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ سکیں گے اور تعاون کی بنیاد پختہ ہو گی؛ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں یہ تعاون پارٹنرشپ کی کوئی صورت اختیار کر لے‘‘۔ پاکستان حقانی کے ساتھ کسی قسم کے مراسم یا حقانی نیٹ ورک سے تعلقات کے تاثر کو مسترد کرتا ہے۔
اخبار کا یہ مضمون ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب امریکہ اور طالبان نمائندوں نے حال ہی میں اس بات پر رضامندی کا اظہار کیا ہے کہ سات دن کے لیے افغانستان میں شدت پسند کارروائیاں بند کی جائیں گی۔ اگر یہ عارضی معاہدہ کامیاب ہوتا ہے تو دونوں فریق اس ماہ کے آخر تک امن سمجھوتے پر دستخط کریں گے، جس کا ایک طویل عرصے سے انتظار کیا جاتا رہا ہے۔
منگل کے دن اپنے خطاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ امن سمجھوتے کا ’’امکان موجود ہے‘‘، جس کے نتیجے میں افغانستان سے فوجوں کا انخلا ہو سکے گا، جس سے امریکہ کی اس طویل ترین لڑائی کا خاتمہ ممکن ہو گا۔
ٹرمپ نے میری لینڈ میں جوائنٹ بیس انڈریوز ہوائی اڈے پر اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔ ہم کچھ عرصے سے ان سے بات کر رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ معاہدہ ہو جائے۔ اس کا امکان موجود ہے‘‘۔
دونوں فریقوں نے 18 ماہ سے جاری بات چیت کے دوران، جو کشیدگی کا شکار رہی ہے، سمجھوتے کے مسودے پر مذاکرات کیے ہیں۔
سمجھوتے میں افغانستان سے امریکہ اور اتحادی افواج کے انخلا کا نظام الاوقات، باغیوں کی جانب سے دہشت گردی روکنے سے متعلق سیکیورٹی کی ضمانتیں، اور تنازع میں ملوث افغان فریقین کے مابین سیاسی مفاہمت کے عمل کی تفصیل درج ہے۔
حقانی کے بقول، ’’بہت جلد میرے افغان ہم وطن اس تاریخی سمجھوتے کا جشن منا رہے ہوں گے۔ ایک بار اس پر مکمل عمل درآمد ہو جائے، تو وہ تمام غیر ملکی افواج کو وطن سے واپس جاتے ہوئے دیکھیں گے‘‘۔
سرحد پار سے افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج پر مہلک ترین حملوں کی منصوبہ سازی کے الزام پر امریکہ نے سراج الدین حقانی کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ان کے پکڑے جانے پر ایک کروڑ ڈالر انعام کا اعلان کر رکھا ہے۔
ادھر، افغانستان کے قومی سلامتی کے ادارے کے ترجمان، جاوید فیصل نے جمعرات کے روز وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو بتایا کہ افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد کی کارروائیوں میں کمی کے معاملے پر موصول ہونے والے احکامات پر کام جاری ہے۔ اس حکم نامے کا باضابطہ اعلان تشدد کی کارروائی میں سات روزہ کمی کی تاریخ سے ایک روز قبل کیا جائے گا۔
انھوں نے بتایا کہ حکم نامے پر عمل درآمد کی تفصیل کا معاملہ متعدد کمیٹیوں کے زیر غور ہے، جو اسے آخری شکل دے رہی ہیں۔
جاوید فیصل نے کہا کہ تفصیل پر عمل درآمد کے کام میں تمام کمانڈر اور صوبائی پولیس کے سارے سربراہان شامل ہیں، جنھیں اس بات کا علم ہو گا کہ تشدد کی کارروائی میں کمی لانے کے عرصے کے دوران کیا کرنا ہو گا۔
افغان فوج کے سابق سربراہ، جنرل شیر محمد کرامی نے کہا ہے کہ افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کے لیے یہ مشکل کام نہیں ہے کہ وہ افغان سیکیورٹی فورسز کے حلقوں کی شمولیت سے تشدد کی کارروائیوں میں کمی لانے کے کام پر عمل درآمد کرائیں۔
انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس عرصے کے دوران افغان فورسز چوکنا اور دفاعی حیثیت میں رہ کر فرائض انجام دیں گی۔
تاہم، افغان فوج کے سابق جنرل، عتیق اللہ امرخیل نے کہا ہے کہ طالبان کے علاوہ ایسے دیگر گروپ بھی موجود ہیں جو افغانستان میں افغان اور غیر ملکی افواج سے لڑ رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ تشدد کی کارروائیوں میں کمی لانے کے عرصے کے دوران ان میں سے کوئی گروہ حملہ کر دے۔ ساتھ ہی، ایسے طالبان کمانڈر بھی ہو سکتے ہیں جو اپنی قیادت کے احکامات نہ مانیں۔
دریں اثنا، ایک سابق طالب، اکبر آغا یہ سمجھتے ہیں کہ تشدد کی کارروائیوں میں کمی لانے کے عرصے کے دوران ایسا لگے گا جیسے افغانستان میں غیر اعلانیہ جنگ بندی ہے۔