افغانستان میں نیٹو کے 130,000 سپاہی موجود ہیں۔ ان میں سے 90,000 امریکی ہیں ۔ ایک اور ملک جسے اس علاقے میں دلچسپی ہے، روس ہے، لیکن افغانستان میں اس کا کوئی فوجی موجود نہیں۔ تاہم، روس ، افغانستان میں نیٹو کی مدد میں اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔
بہت سے افغانوں کو وہ دس سالہ جنگ یاد ہے جو ماسکو اور مجاہدین کے درمیان ہوئی تھی، اور جس کا اختتام، فروری 1989 میں افغانستان سے سوویت فوجوں کی واپسی پر ہوا تھا۔
رینڈ کارپوریشن میں افغانستان کے امور کے ماہر سیتھ جونز کہتے ہیں’’افغانستان کے جن لوگوں سے میں اکثر با ت چیت کرتا رہتا ہوں، ان میں سے بیشتر کو 1980 کی دہائی کی سوویت جنگ اچھی طرح یاد ہے ۔ اور شاید غنیمت یہی ہے کہ آج کل افغانستان میں روس کا کوئی بڑا رول نہیں ہے ، یقیناً جنگی کارروائیوں میں تو بالکل نہیں ہے، کیو ں کہ افغانستان میں روسیوں کی موجودگی کی یادیں بڑی تلخ ہیں۔‘‘
جونز کہتے ہیں کہ اگرچہ افغانستان میں روسی سپاہی تو نہیں ہیں، لیکن ماسکو نے افغانستان میں نیٹو کی جنگی کارروائیوں کی حمایت ضرور کی ہے، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ طالبان کی فتح یا ملک میں خانہ جنگی، روس کے مفاد میں نہیں ہو گی۔’’ روس کو اس بات پر تشویش ہےکہ کہیں انتہا پسند اسلام کے اثرات ان کی سرحد کے نزدیک تک نہ پھیل جائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ جنگ کے لیے ضروری سازو سامان ہوائی جہازوں، ریل گاڑیوں اور ٹرکوں کے ذریعے اس کے علاقے سے گزر کر اور پھر وسط ایشیا سے ہو کر افغانستان پہنچنے دیا جائے ۔‘‘
واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان جو تازہ ترین سمجھوتہ ہوا ہے اس کے تحت نیٹو Ulyanovsk میں قائم روسی فوجی اڈ ے کو استعمال کر سکے گی ۔ Ulyanovsk ماسکو سے تقریباً 900 کلومیٹر جنوب مشرق میں، اور قزاقستان کی سرحد سے تقریباً 300 کلو میٹر شمال مغرب میں واقع ہے ۔ Ulyanovsk جسے پہلے سمبرسک کہا جاتا تھا، سوویت یونین کے بانی ولادیمر لینن کی جائے پیدائش ہے ۔ آ ج کل روس کی فضائی افواج اس ہو ائی اڈے کو استعمال کرتی ہیں ۔
برنارڈ کالج میں وسط ایشیا کے امور کے ماہر ایلگزینڈر کولی کہتے ہیں کہ Ulyanovsk کے ہوائی اڈے کو افغانستان سے سازو سامان نکالنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
’’ اس پور ے معاملے کی اہمیت یہ ہے کہ یہ پہلا موقع ہو گا کہ روس کے علاقے میں، نیٹو کے استعمال کے لیے ایک اڈا موجود ہو گا ۔ نیٹو کے رول کے بارے میں، شہر کے باہر کچھ مظاہرے ہوئے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس اڈے کی تجارتی قدر و قیمت کافی ہوگی۔ روسی عہدے دار اور بیورو کریٹس راہداری کی فیس کے طور پر کروڑوں ڈالر وصول کریں گے ۔ لہٰذا ، یہ سمجھوتہ، روس کے لیے بڑا اچھا کاروباری سودا ثابت ہو سکتا ہے ۔‘‘
امریکہ کے آرمی وار کالج میں قومی سلامتی کے امور کے ماہر، اسٹیفن بلینک کہتے ہیں کہ Ulyanovsk کے بار ے میں با ت کرنا خاصا حساس معاملہ ہے۔’’نیٹو اسے ہوائی اڈا کہنا نہیں چاہتی کیوں کہ اس طرح روس کی رائے عامہ اور روسی حکومت دونوں ناراض ہو جاتے ہیں۔ یہ در اصل سامان کی نقل و حرکت کا مرکز ہو گا جس کے ذریعے، افغانستان سے اپنی فوجیں نکالتے وقت، ہم ہوائی جہازوں سے اپنا سامان نکالیں گے، اور پھر اسے یورپ یا امریکہ لے جائیں گے ۔ یہ کوئی ہوائی اڈا نہیں ہو گا۔ یہاں کوئی فوجی کارروائیاں نہیں ہوں گی اور نہ کوئی فوجی تعینات کیے جائیں گے۔‘‘
بلینک کہتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ افغانستان کی جانب، روس کی پالیسی بڑی مبہم سی ہے ۔’’ایک طرف تو وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکہ طالبان اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جنگ کے ذریعے، ان کے مفادات کا دفاع کر رہا ہے ۔ دوسری طرف، وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہم وسط ایشیا سے نکل جائیں ۔ یہ ایسا تضاد ہے جسے وہ حل نہیں کر سکتے ۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ہم وسط ایشیا سے نکل جائیں، تو Ulyanovsk کے سامان کی نقل و حرکت کے مرکز کے ذریعے وہ ہماری مد د کر سکتے ہیں، کیوں کہ اس طرح ہم وہاں سے اپنی چیزیں تیزی سے نکال سکتے ہیں ۔‘‘
بہت سے ماہرین کہتے ہیں کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ نیٹو اور امریکہ، ازبکستان اور افغانستان کے درمیان ترمز کے مقام پر سرحد پار کریں گے ، اور افغانستان سے نکلنے کے لیے فرینڈشب برج استعمال کیا جائے گا ۔ یہ وہی سڑک ہے جو سوویت فوجوں نے فروری 1989 میں افغانستان سے نکلنے کے لیے استعمال کی تھی ۔
بہت سے افغانوں کو وہ دس سالہ جنگ یاد ہے جو ماسکو اور مجاہدین کے درمیان ہوئی تھی، اور جس کا اختتام، فروری 1989 میں افغانستان سے سوویت فوجوں کی واپسی پر ہوا تھا۔
رینڈ کارپوریشن میں افغانستان کے امور کے ماہر سیتھ جونز کہتے ہیں’’افغانستان کے جن لوگوں سے میں اکثر با ت چیت کرتا رہتا ہوں، ان میں سے بیشتر کو 1980 کی دہائی کی سوویت جنگ اچھی طرح یاد ہے ۔ اور شاید غنیمت یہی ہے کہ آج کل افغانستان میں روس کا کوئی بڑا رول نہیں ہے ، یقیناً جنگی کارروائیوں میں تو بالکل نہیں ہے، کیو ں کہ افغانستان میں روسیوں کی موجودگی کی یادیں بڑی تلخ ہیں۔‘‘
جونز کہتے ہیں کہ اگرچہ افغانستان میں روسی سپاہی تو نہیں ہیں، لیکن ماسکو نے افغانستان میں نیٹو کی جنگی کارروائیوں کی حمایت ضرور کی ہے، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ طالبان کی فتح یا ملک میں خانہ جنگی، روس کے مفاد میں نہیں ہو گی۔’’ روس کو اس بات پر تشویش ہےکہ کہیں انتہا پسند اسلام کے اثرات ان کی سرحد کے نزدیک تک نہ پھیل جائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ جنگ کے لیے ضروری سازو سامان ہوائی جہازوں، ریل گاڑیوں اور ٹرکوں کے ذریعے اس کے علاقے سے گزر کر اور پھر وسط ایشیا سے ہو کر افغانستان پہنچنے دیا جائے ۔‘‘
واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان جو تازہ ترین سمجھوتہ ہوا ہے اس کے تحت نیٹو Ulyanovsk میں قائم روسی فوجی اڈ ے کو استعمال کر سکے گی ۔ Ulyanovsk ماسکو سے تقریباً 900 کلومیٹر جنوب مشرق میں، اور قزاقستان کی سرحد سے تقریباً 300 کلو میٹر شمال مغرب میں واقع ہے ۔ Ulyanovsk جسے پہلے سمبرسک کہا جاتا تھا، سوویت یونین کے بانی ولادیمر لینن کی جائے پیدائش ہے ۔ آ ج کل روس کی فضائی افواج اس ہو ائی اڈے کو استعمال کرتی ہیں ۔
برنارڈ کالج میں وسط ایشیا کے امور کے ماہر ایلگزینڈر کولی کہتے ہیں کہ Ulyanovsk کے ہوائی اڈے کو افغانستان سے سازو سامان نکالنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
’’ اس پور ے معاملے کی اہمیت یہ ہے کہ یہ پہلا موقع ہو گا کہ روس کے علاقے میں، نیٹو کے استعمال کے لیے ایک اڈا موجود ہو گا ۔ نیٹو کے رول کے بارے میں، شہر کے باہر کچھ مظاہرے ہوئے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس اڈے کی تجارتی قدر و قیمت کافی ہوگی۔ روسی عہدے دار اور بیورو کریٹس راہداری کی فیس کے طور پر کروڑوں ڈالر وصول کریں گے ۔ لہٰذا ، یہ سمجھوتہ، روس کے لیے بڑا اچھا کاروباری سودا ثابت ہو سکتا ہے ۔‘‘
امریکہ کے آرمی وار کالج میں قومی سلامتی کے امور کے ماہر، اسٹیفن بلینک کہتے ہیں کہ Ulyanovsk کے بار ے میں با ت کرنا خاصا حساس معاملہ ہے۔’’نیٹو اسے ہوائی اڈا کہنا نہیں چاہتی کیوں کہ اس طرح روس کی رائے عامہ اور روسی حکومت دونوں ناراض ہو جاتے ہیں۔ یہ در اصل سامان کی نقل و حرکت کا مرکز ہو گا جس کے ذریعے، افغانستان سے اپنی فوجیں نکالتے وقت، ہم ہوائی جہازوں سے اپنا سامان نکالیں گے، اور پھر اسے یورپ یا امریکہ لے جائیں گے ۔ یہ کوئی ہوائی اڈا نہیں ہو گا۔ یہاں کوئی فوجی کارروائیاں نہیں ہوں گی اور نہ کوئی فوجی تعینات کیے جائیں گے۔‘‘
بلینک کہتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ افغانستان کی جانب، روس کی پالیسی بڑی مبہم سی ہے ۔’’ایک طرف تو وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکہ طالبان اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جنگ کے ذریعے، ان کے مفادات کا دفاع کر رہا ہے ۔ دوسری طرف، وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہم وسط ایشیا سے نکل جائیں ۔ یہ ایسا تضاد ہے جسے وہ حل نہیں کر سکتے ۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ہم وسط ایشیا سے نکل جائیں، تو Ulyanovsk کے سامان کی نقل و حرکت کے مرکز کے ذریعے وہ ہماری مد د کر سکتے ہیں، کیوں کہ اس طرح ہم وہاں سے اپنی چیزیں تیزی سے نکال سکتے ہیں ۔‘‘
بہت سے ماہرین کہتے ہیں کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ نیٹو اور امریکہ، ازبکستان اور افغانستان کے درمیان ترمز کے مقام پر سرحد پار کریں گے ، اور افغانستان سے نکلنے کے لیے فرینڈشب برج استعمال کیا جائے گا ۔ یہ وہی سڑک ہے جو سوویت فوجوں نے فروری 1989 میں افغانستان سے نکلنے کے لیے استعمال کی تھی ۔