|
اسلام آباد — افغانستان میں برسر اقتدار طالبان کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اس نے ہمسایہ ملک ازبکستان کے ساتھ ڈھائی ارب ڈالر کا تجارتی اور سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا ہے۔
طالبان حکومت کے مطابق یہ معاہدہ ازبکستان کے وزیراعظم کے کابل دورے کے دوران ہفتے کو طے پایا۔
دورے کے دوران ازبک وزیرِ اعظم کے ہمراہ سرمایہ کاری، صنعت اور تجارت کے وزرا اور دیگر اعلی حکام بھی موجود تھے۔
ازبک وزیرِ اعظم عبداللہ اریپوف اور طالبان حکومت کے نائب وزیرِ اعظم ملا عبدالغنی برادر تجارتی معاہدے کے موقع پر موجود تھے۔
ملا برادر کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ 1.4 ارب ڈالر مالیت کے 12 سرمایہ کاری جب کہ 1.1 ارب ڈالرز کے 23 تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔
دستاویزات کے مطابق ان میں زراعت، توانائی، انفراسٹرکچر اور مینوفیکچرنگ کے شعبے شامل ہیں۔
اس موقع پر ملا عبدالغنی برادر کا کہنا تھا کہ معاہدوں سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کے ساتھ ساتھ تعاون کی مزید راہیں کھلیں گی۔
ازبک وزیرِ اعظم کے بقول دونوں ممالک تجارتی حجم تین ارب ڈالرز تک پہنچانے کے لیے کوشاں ہیں۔
واضح رہے کہ افغانستان اور ازبکستان کے درمیان 144 کلو میٹر طویل سرحد ہے اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ممالک دو طرفہ سیاسی تعلقات، سیکیورٹی اور معاشی تعاون میں بہتری کے لیے کوشاں رہے ہیں۔
خیال رہے کہ قدامت پرست طالبان نے اگست 2021 میں امریکہ اور نیٹو افواج کے 20 برس بعد انخلا کے بعد ملک کا نظام سنبھالا تھا۔
اب تک کسی بھی ملک نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جب کہ عالمی امداد بھی معطل ہے۔
طالبان کے متعدد رہنماؤں پر دہشت گردی سے متعلق عالمی پابندیاں اور غیر ملکی ترقیاتی امداد کی بندش نے طالبان حکومت کے لیے معاشی مسائل سے نمٹنا مشکل بنا دیا ہے۔
عالمی بینک نے رواں سال اپریل میں رپورٹ کیا تھا کہ طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد بین الاقوامی امداد میں واضح کمی دیکھی گئی ہے جب کہ حیران کن طور پر جی ڈی پی میں 26 فی صد کمی دیکھی گئی ہے۔
تاہم طالبان کی سخت گیر پالیسیوں کے سبب افغان لڑکیوں کو چھٹی جماعت سے آگے اسکول جانے اور خواتین کو سرکاری اور نجی شعبے میں ملازمت سے روک دیا گیا ہے۔
طالبان اپنی پالیسیوں پر تنقید کو ملک کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے اسے مقامی کلچر اور شریعت کے مطابق قرار دیتے ہیں۔