افغانستان میں طالبان کی وزارت تعلیم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بدھ کے روز سے ملک میں لڑکیوں اور لڑکوں کے اسکول کھل رہے ہیں۔
طالبان کی وزارت تعلیم کے ترجمان اور اشاعت کے محکمے کے سربراہ عزیز احمد ریان نے وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 23 مارچ سے ملک بھر کے تمام اسکول دوبارہ کھل جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ طالبان کی حکومت نے لڑکیوں کے لیے کوئی نیا یونی فارم متعارف نہیں کروایا۔ ان کے مطابق، لڑکیاں حجاب کی پابندی کے ساتھ کسی بھی قسم کا لباس پہن سکتی ہیں۔
ملک بھر میں ایک لاکھ 94 ہزار کے قریب اساتذہ، جن میں 36 فیصد خواتین ہیں ملک کی وزارت تعلیم کے ساتھ منسلک ہیں۔
یونیسیف نے جنوری اور فروری 2022 کے لیے اساتذہ کی سو ڈالر ماہانہ کے حساب سے تنخواہ دینا شروع کر دی ہے۔ عزیز احمد ریان کا کہنا ہے کہ وہ امدادی ایجنسیوں سے بات کر رہے ہیں کہ 2022 کے اگلے دس مہینوں کی تنخواہ بھی فراہم کریں۔
طالبان کی جانب سے اس اعلان کے ردعمل میں افغانستان کی امداد کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی مشن، ’یوناما‘ نے کہا ہے کہ افغان وزیر تعلیم مولوی عبد الباقی حقانی کے ساتھ ہائیر ایجوکیشن کے بارے میں ادارے کے مذاکرات اتوار کے روز بھی جاری تھے۔ ادارے نے ہر شہری کے لیے تعلیم تک رسائی اور تعلیمی آزادی کی ضمانتوں پر زور دیا۔
عالمی ادارے یونیسیف نے والدین سے اپیل کی ہے کہ وہ بدھ کےروز اسکولوں میں اپنے بچے بھیجنے سے پہلے ان کی تیاری مکمل کروالیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی خواتین کے حقوق کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیتھر بار نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امدادی اداروں کو ایسے طریقے ڈھونڈنے ہوں گے کہ طالبان خواتین کے تعلیم کے حق کا احترام کریں۔
گزشتہ برس اگست کی 15 تاریخ کو کابل پر قبضے کے بعد طالبان نے ایک مہینے کے وقفے کے بعد 18 ستمبر کو لڑکوں کے سیکنڈری اسکول کھولنے کا حکم دیا، لیکن لڑکیوں کے اسکولوں کے بارے میں خاموشی اختیار کی۔ ملک میں گزشتہ برس اگست سے لڑکیوں کے اکثر سیکنڈری اسکول بند ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ لڑکیوں کے اسکول کھولنا کافی نہیں ہے۔ طالبان کی جانب سے لڑکیوں کو اور بھی کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے جن میں انہیں تشدد، نگرانی، اسکولوں میں طالبان کی جانب سے ڈرانے دھمکانے، تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے اساتذہ کی کمی، طالبان کی جانب سے اسکول کے نصاب میں تبدیلی سمیت ملک میں جاری انسانی بحران شامل ہے۔
ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ امدادی ادارے انسانی حقوق سےمتعلق اپنے خدشات کا اظہار براہ راست طالبان حکام سے کریں اور انہیں کھلے الفاظ میں بتا دیں کہ تعلیم کے لیے امداد ان علاقوں میں نہیں دی جائے گی جہاں خواتین پر تعلیمی اور باقی معاملات میں پابندیاں عائد ہیں۔