افغانستان میں سیکیورٹی کی صورت حال افغان امور کے ماہرین اور وہاں آباد اقلیتوں کے نمائندوں کے بقول قابل اطمنان نہیں ہے۔ اور وہاں کے لوگ،خاص طور پر اقلیتیں،خود کو مکمل طور پر محفوظ نہیں سمجھتیں۔
بریگیڈیر سعد نذیر کا تعلق انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے ہے اور وہ افغانستان کی صورت حال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ابھی تک افغانستان کی صورت حال میں کسی بھی شعبے میں ٹھہراؤ نہیں آیا اور نہ استحکام پیدا ہونا شروع ہوا ہے خواہ وہ سیاسی صورت حال ہو یا سیکیورٹی کی صورت یا معاشی صورت حال۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کے لئے بہت ساری دوسری مشکلات کے علاوہ سب سے بڑا مسئلہ ان دہشت گرد گروپوں کا خاص طور پر داعش-خراسان کا ہے جو ماضی میں طالبان کے خلاف کام کرتے رہے تھے اور اب طالبان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے انکے حملوں میں شدت آگئ ہے۔ وہ اقلیتوں کو ہدف بنا رہے ہیں جو پہلے ہی غیر محفوظ تھیں۔
بریگیڈیر سعد نذیر کا کہنا تھا کہ طالبان اپنے طور پر کوشش کرتے ہیں اور انہوں نے اقلیتوں کے بعض نمائندوں کو کابینہ میں بھی لیا ہے۔ لیکن بقیہ اقلیتوں اور بطور خاص خواتین کے حقوق بحال نہیں ہوئے۔ اور یہی بات ساری دنیا کے لئے تشویش کا باعث ہے کہ نہ تو وہ ایک ایسی حکومت بنا سکے ہیں جس میں ملک میں آباد اکثریت کے ساتھ ہر اقلیت کی نمائندگی ہو، نہ اقلیتوں کو یہ باور کرا سکے ہیں کہ وہ محفوظ ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جس طرح ایران میں جہاں اکثریت شیعہ آبادی کی ہے، فقہ جعفریہ چلتی ہے اسی طرح افغانستان میں اگثریت حنفی فقہ کے ماننے والوں کی ہے تو وہاں اسی فقہ کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ جہاں تک شیعہ اقلیت کو داعش سے بچانے کا تعلق ہے اس میں طالبان کامیاب نہیں ہوسکے ہیں؛ بلکہ وہ تو خود اپنے اوپر بھی داعش کو حملوں سے باز رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کے علاوہ جو دوسری نسلی اقلیتوں ہیں وہ اس لئے زیادہ پریشان نہیں ہیں کہ ابھی تک وہ داعش کا ہدف نہیں بنی ہیں۔
بریگیڈیر سعد نذیر نے کہا کہ افغانستان میں اگر معاشی استحکام نہ آیا اور غذائی بحران جاری رہا تو خدشہ ہے کہ عام لوگ ان کے خلاف نہ اٹھ کھڑے ہوں اور اندرونی سیکیورٹی کے لئے دوسرا سب سے بڑا خطرہ وہ تین لاکھ سے زیادہ فوجی ہیں جو سابقہ حکومت میں فوج کا حصہ تھے۔ اگر انہوں نے اجتماعی طور پر داعش-خراسان جیسے گروپوں میں جانے کا فیصلہ کر لیا تو حالات ایسا رخ اختیار کر سکتے ہیں جس کے بارے میں اس وقت سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
محمد محقق افغانستان کے ایک سابق مرکزی وزیر اور سابق نائب صدر اور افغانستان کے شیعوں کے نمائندوں میں سے ایک ہیں۔ وہ اس دن ایک میٹنگ کے سلسلے میں ہاکستان میں تھے جس دن سقوط کابل ہوا۔ ترکی کے شہر استنبول سے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک مترجم کے توسط فارسی میں گفتگو کرتے ہوئے، انہوں کہا کہ طالبان کی انتظامیہ کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ان کی کابینہ میں چند ازبک اور تاجک لوگوں کے سوا اور کسی، خاص طور پر ہزارہ اور شیعہ اقلیت کا کوئی نمائندہ شامل نہیں ہے۔ اسی طرح 34 صوبوں کے گورنروں کی جنہیں افغانستان میں والی کہا جاتا ہے، فہرست دیکھ لیجئے تو یہی صورت حال نظر آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ اپنے وعدوں کے برخلاف وہ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں، اور بقول ان کے، حال ہی میں کوئی 2000 لوگوں کو جو ہزارہ تھے ملازمتوں سے نکالا گیا ہے۔ اور ملازمتوں میں نئی بھرتیوں کے لئے انہوں نے ایک فارم بھرنے کو لازمی کر دیا ہے جس میں ایک خانہ فرقے کا بڑھا دیا گیا ہے کہ ملازمت کے امیدوار کا تعلق کس فرقے سے ہے۔ طالبان بظاہر دنیا کو دکھانے کے لئے ہزارہ اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ نرم روئیے کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن اندرونی طور پر انہیں بہت تنگ کیا جاتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ ہزارہ زیادہ خطرہ داعش سے محسوس کرتے ہیں یا طالبان سے، انہوں نے کہا کہ یقیناً داعش زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ لیکن طالبان کا رویہ بھی بہت زیادہ دوستانہ نہیں رہا۔ اور اب یہ طالبان کا امتحان ہے کہ وہ ہزارہ اور شیعہ اقلیت کو داعش سے کس طرح بچاتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ نہ صرف طالبان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اقلیتوں کی حفاظت کر رہے ہیں، بلکہ وہ عملاً شیعہ مساجد اور امام بارگاہوں کی حفاظت کرتے نظر بھی آتے ہیں۔ اس بارے میں وہ کیا کہیں گے تو انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت نے شیعہ اقلیت کو داعش سے تحفظ کے لئے ایک نظام وضع کیا تھا کہ شیعہ آبادی والے علاقوں میں اسی علاقے سے محافظ لئے جاتے تھے اور حکومت ان کو اسلحہ اور ان کی تنخواہیں دیتی تھی لیکن طالبان کے آنے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا اور باوجود کوشش کے اب تک بحال نہیں ہو سکا۔
رہ گیا معاملہ طالبان کی جانب سے ان تصویروں کے اجراء کا جن میں وہ شیعوں کے مقامات مقدسہ کی حفاظت کرتے دکھائی دیتے ہیں تو ممکن ہے کسی حملے کے بعد طالبان محافظ موقع واردات پر گئے ہوں، مگر شیعہ اقلیت کی حفاظت کا کوئی مستقل بند و بست نہیں ہے، اور یہ کہ دنیا کے مبصرین خود وہاں جا کر جائزہ لے سکتے ہیں۔
طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ نہ صرف ملک میں آباد تمام نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں، بلکہ ایک ایسی حکومت بنا رہے ہیں جس میں ہر طبقے کو نمائندگی حاصل ہو۔
حال ہی میں طالبان نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ افغان مرکزی بینک کے 9 ارب ڈالر سے زائد منجمد اثاثے جاری کیے جائیں اور ملک کے خلاف عائد دیگر مالیاتی پابندیاں ہٹائی جائیں۔ ان کا کہنا کہ ان پابندیوں کے نتیجے میں نہ صرف تجارت اور کاروبار کو سخت دھچکہ لگا ہے بلکہ پریشان حال لاکھوں افغان باشندوں کو انسانی ہمدردی کی امداد میسر نہیں ہو پا رہی ہے۔
طالبان دعویٰ کرتے ہیں کہ اگست میں اختیار سنبھالنے کے بعد ان کی حکومت نے افغانستان کے سیاسی استحکام اور سیکیورٹی میں بہتری لانے کے لیے کام کیا ہے، لیکن بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کی وجہ سے انسانی ہمدردی کی نوعیت کے چیلنج بدتر صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے بھی تقریباً ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی امدادی رقم معطل کر دی ہے، جسے وہ اس سال افغانستان کو جاری کرنے والے تھے۔