اقوام متحدہ نے افغان خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین پر مؤثر عملدرآمد کو یقینی بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان قوانین کے تحت ہونے والے فیصلوں کی شرح بہت کم ہے۔
بدھ کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے مشن اور عالمی ادارے کے دفتر برائے حقوق انسانی کا کہنا تھا کہ استغاثہ نے خواتین پر تشدد سے متعلق صرف 26 فیصد مقدمات قائم کیے اور ججوں نے اس قانون کے تحت صرف چار فیصد پر فیصلہ سنایا۔
اس قانون کا اطلاق 2009 ء میں ہوا تھا جس کے تحت جبری اور کم عمری میں شادی، خواتین سے جنسی زیادتی اور مار پیٹ سمیت تشدد کی 17 اقسام کو جرم قرار دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی ہائی کمشنر ناوی پلے نے کہا کہ قانون کے تحت خواتین کے تحفظ کے لیے افغانستان کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اکثر مقدمات یا تو واپس لے لیے جاتے ہیں یا پھر ان کی پیروی دیگر قوانین کے مطابق ہوتی ہے جن میں شرعی قوانین شامل ہے اور ان میں بعض اوقات خواتین کو ہی ’اخلاقی جرائم‘ کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ حکومت ملک میں اس قانون کے بارے میں مرد و خواتین میں آگاہی بڑھانے کے لیے کام کرنے کے علاوہ حکام کو متسقل مزاجی سے اس پر عمل درآمد کے لیے ہدایت کرے۔