رسائی کے لنکس

بلوچستان میں دورانِ زچگی اموات میں اضافہ؛ 'ڈیرہ بگٹی میں ایک بھی لیڈی ڈاکٹر نہیں ہے'


  • بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں گزشتہ برس 30 خواتین کی دورانِ زچگی ہلاکت ہوئی۔
  • مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ڈلیوری کے لیے پنجاب کے ضلع رحیم یار خان جانا پڑتا ہے۔
  • بلوچستان میں دوران زچگی ماؤں کی اموات کی شرح ملک میں سب سے زیادہ ہے: ڈاکٹرز ود آوٹ بارڈرز
  • ڈیرہ بگٹی کے سرکاری اسپتال میں کوئی گائناکالوجسٹ یا لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں ہیں: ڈی ایچ او ڈیرہ بگٹی ڈاکڑ اعظم بگٹی

کوئٹہ -- "میں اپنی بیوی کو ڈیرہ بگٹی سے 200 کلو میٹر دور رحیم یار خان لے جا رہا تھا۔ میرے دل میں ایک ہی دعا تھی کہ وہ اور ہماری آنے والی بچی دونوں ہی سلامت رہیں۔ لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ راستے میں میری بیوی اور ننھی پری دونوں ہی مجھ سے جدا ہو گئیں۔"

یہ الفاظ ہیں بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کے رہائشی صورت خان بگٹی کے جو علاقے میں لیڈی ڈاکٹرز اور صحت کی دیگر سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث اپنی بیوی اور بچی کی موت کا غم جھیل رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ڈیرہ بگٹی میں دورانِ زچگی خواتین کے لیے طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں جس کے باعث لوگ ایمرجنسی کی صورت میں پنجاب کے ضلع رحیم خان یا دیگر شہروں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔

صورت خان کا کہنا ہے کہ علاقے کے عوام نے کئی بار ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ( ڈی ایچ او) کو درخواست کی ہے کہ علاقے میں فوری طور پر گائناکالوجسٹ اور دیگر لیڈی ڈاکٹرز کی تعینانی یقینی بنائی جائے، لیکن افسوس کہ اب تک اس حوالے سے کوئی بھی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔

ان کے بقول "میری بیوی اور بیٹی تو دنیا سے رخصت ہو گئیں، لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ علاقے کی دیگر خواتین بھی دورانِ زچگی اسی طرح بے بسی میں موت کے منہ میں چلی جائیں۔"

سال 2024 میں ڈیرہ بگٹی میں دورانِ زچگی 30 خواتین کی اموات

اس صورتِ حال سے صرف صورت خان ہی متاثر نہیں بلکہ ڈیرہ بگٹی کے دیہی علاقوں کی اکثریت اس مسئلے سے دوچار ہے۔

ڈیرہ بگٹی کے متحرک سماجی کارکن عبدالغفار بگٹی نے ان مسائل کے حل کے لیے ایک تحریک کا آغاز کیا ہے اور وہ اس کے حل کے لیے احتجاجی مظاہرے بھی کرتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ سے چھ برسوں میں ڈیرہ بگٹی میں دوران زچگی خواتین کی شرح اموات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

ان کے مطابق ان خواتین کی عمریں عموماً 20 سے 30 سال کی درمیان تھیں۔

عبدالغفار نے دیگر سماجی کارکنوں کے ہمراہ 2024 کے دوران ایسی خواتین کی اموات کا ڈیٹا اکٹھا کیا جس کے مطابق صرف گزشتہ سال ڈیرہ بگٹی میں 30 خواتین دوران زچگی صحت کی بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی اور دیگر وجوہات کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔

تاہم سرکاری سطح پر ان اعداد وشمار کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

عبدالغفار کے مطابق علاقے میں زچہ بچہ سینٹر موجود نہیں اور نہ ہی کوئی بلڈ بینک قائم ہے۔

اُن کے بقول "صورتِ حال اس قدر سنگین ہے کہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال میں ایک بھی لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں ہے۔"

ان کے مطابق ممکن ہے کہ حکومت نے ڈاکٹرز تعینات کیے ہوں لیکن وہ اپنی ڈیوٹیوں پر حاضر نہیں ہیں۔ یہ مسئلہ فوری توجہ کا متقاضی ہے لیکن تاحال کوئی عملی اقدامات نظر نہیں آ رہے۔

وہ کہتے ہیں کہ علاقے میں اکثر ایسی ایمرجنسی میں خواتین کو 200 کلو میٹر دور رحیم یار خان منتقل کیا جاتا ہے تاہم خراب انفراسٹرکچر اور جگہ جگہ سیکیورٹی چیکنگ کے باعث چار گھنٹے کا سفر آٹھ سے نو گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔

ڈیرہ بگٹی کے لیے چھ لیڈی ڈاکٹرز کی تعیناتی کا مطالبہ

ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (ڈی ایچ او) ڈیرہ بگٹی نے اعتراف کیا ہے کہ ضلع کے سرکاری اسپتال میں کوئی گائناکالوجسٹ یا لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی ایچ او ڈیرہ بگٹی ڈاکڑ اعظم بگٹی نے کہا کہ اب تک ضلع بھر میں زچگی اور تولیدی صحت کے معاملات کے لیے مڈ وائفز اور لیڈی ہیلتھ ورکزر پر انحصار کیا جا رہا ہے۔

ان کے بقول لیڈی ہیلتھ ورکرز اور لیڈی ڈاکٹر کے لیے مقامی سطح پر اسامیاں آتی رہتی ہیں مگر مقامی سطح پر لیڈی ڈاکٹرز دستیاب نہیں اس لیے ان آسامیوں کو پُر کرنا مشکل ہے۔

اس بار صوبہ پنجاب سے لیڈی ہیلتھ ورکرز (ایل ایچ ویز) نے درخواستیں دی ہیں جن کی تعیناتی سے مسئلے کے کسی حد تک حل ہونے کی امید ہے۔

ڈی ایچ او کے مطابق تین لاکھ کی آبادی والے اس ضلع میں نہ صرف لیڈی ڈاکٹرز کی کمی ہے بلکہ کوئی بھی لیبر روم بھی نہیں ہے۔

یاد رہے کہ ڈیرہ بگٹی بلوچستان کے موجودہ وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی کا حلقہ انتخاب ہے۔

ڈی ایچ او نے بتایا ہے کہ وزیر اعلیٰ اور دیگر اعلیٰ حکام کو موجودہ صورتِ حال سے آگاہ کیا ہے اور ان سے ڈیرہ بگٹی کے لیے چھ لیڈی ڈاکٹرز اور 12 میڈیکل آفیسرز کی تعیناتی کی درخواست کی ہے۔

قبائلی معاشرے میں خواتین کو تولیدی صحت کے حصول میں مشکلات

سماجی کارکن حمید نور نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ قبائلی علاقوں میں بہت سے خاندان ہوم ڈلیوری کے لیے غیر تربیت یافتہ دائیوں پر انحصار کرتے ہیں جس سے ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کی زندگیوں کو مزید خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

حمیدہ نور نے بتایا کہ جدید دور میں بھی بلوچستان کے بعض علاقوں آج بھی خواتین کو غیر تربیت یافتہ دائیوں کے ذریعے گھروں میں ڈلیوری کرائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سول سوسائٹی کی آگاہی کی وجہ سے لوگوں نے اسپتال کا رُخ کرنا شروع کیا، لیکن سہولیات کے فقدان کی وجہ سے لوگ مایوس ہو کر دوبارہ گھروں میں دائیوں کے ذریعے ڈلیوری کرا رہے ہیں۔

بلوچستان میں دوران زچگی شرح اموات سب سے زیادہ کیوں؟

ڈاکٹرز ود آوٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) بلوچستان میں ماں اور بچے کی صحت کی دیکھ بھال پر کام کر رہی ہے۔

ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں دوران زچگی ماؤں کی اموات کی شرح ملک میں سب سے زیادہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق صوبے میں ایک لاکھ میں سے 198 مائیں دورانِ زچگی جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔ مجموعی طور پر پاکستان میں ایک لاکھ میں سے 184 خواتین دورانِ زچگی موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں، یوں بلوچستان میں یہ شرح 40 فی صد زیادہ ہے۔

ماہرینِ صحت کیا کہتے ہیں؟

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں دوران زچگی خواتین کی اموات تشویش ناک ہے۔

بلوچستان میں ماہر گائناکالوجسٹ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ دوران ڈلیوری بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں اور اگر ایسی صورت میں ماہر ڈاکٹر یا عملہ دستیاب نہ ہو تو ماں اور بچہ دونوں کی جانیں خطرے میں رہتی ہیں۔

ان کے مطابق بلوچستان میں زیادہ تر حاملہ خواتین کی دورانِ زچگی اموات زیادہ خون بہنے، بلند فشار خون اور مختلف اقسام کے انفیکشنز کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

دور دراز اور دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کی کمی اور مریض کو فوری طور پر اسپتال تک عدم رسائی کے باعث خواتین کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

صوبے کے 22 اضلاع لیڈی ڈاکٹرز سے محروم

محکمہ صحت بلوچستان کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط یہ انکشاف کیا ہے کہ بلوچستان کے 36 اضلاع میں صرف 14اضلاع میں ماہر امراض نسواں موجود ہیں جب کہ باقی 22 اضلاع اس سہولت سے محروم ہیں۔

ان کے مطابق سرکاری دستاویزات میں بعض علاقوں میں لیڈی ڈاکٹرز تعینات ہیں تاہم مقامی سطح پر وہ اسپتالوں سے غیر حاضر ہیں۔

اُن کے بقول زیادہ تر لیڈی ڈاکٹرز کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی پوسٹنگ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ہو۔

حکومت کیا کر رہی ہے؟

ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز بلوچستان نے اس دعویٰ کو مسترد کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی صحت بلوچستان ڈاکٹر امین خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ماں اور بچے کی صحت سے متعلق بلوچستان میں چار پروگرامز چل رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ان تمام پروگرامز کو ون ونڈو آپریشن کے تحت یکجا کیا جا رہا ہے تاکہ دورانِ زچگی ماں اور بچے کی اموات کی شرح کو کم کیا جائے۔

تاہم یہ کہنا درست نہیں کہ 22 اضلاع میں لیڈی ڈاکٹرز موجود نہیں ہیں۔ بعض دیہی علاقوں میں مسائل ضرور ہیں جن کے لیے وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے مختلف منصوبوں پر کام کا آغاز کیا ہے۔

محکمہ صحت کی جانب سے وائس آف امریکہ کو فراہم کردہ دستاویزات کے مطابق بلوچستان میں کل ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر عملے کی تعداد 45 ہزار سے زائد ہیں جن میں سے خالی اسامیوں کی تعداد 4400 ہے۔

دستاویز کے مطابق صوبے بھر میں لیڈی ڈاکٹرز کی کل تعداد 980 ہے۔

چاغی اور ڈیرہ بگٹی میں کوئی لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں جب کہ آواران، بارکھان، اوستہ محمد، ایک ایک لیڈی ڈاکٹرز تعینات ہیں۔ اس کے علاوہ 11 اضلاع میں 10 سے کم لیڈی ڈاکٹرز موجود ہیں۔

سب سے زیادہ 739 لیڈی ڈاکٹرز صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔

ڈی جی صحت نے بتایا کہ بلوچستان بھر میں 1600 کمیونٹی مڈوائفز کو کمیونٹی ورکنگ اسٹیشنز بنا کر دیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر امین مندوخیل کے مطابق بلوچستان کے بعض دور دراز علاقوں میں سیکیورٹی مسائل اور ڈاکٹرز کی رہائش گاہوں کے مسائل موجود ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے خصوصی فنڈز سے دیہی علاقوں میں لیڈی ڈاکٹرز کو رہائشی سہولیات کی فراہمی کے لیے اقدامات کا حکم دیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG