جمعے کے روز ایک امریکی جنرل جوزف ووٹل نے کہا کہا کہ نیا کمانڈر کارکردگی بہتر بنانے کے لیے افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد کم کر سکتا ہے، جس کے بعد اس کی ایک ہزار سے زیادہ تک ہو سکتی ہے۔
اس ماہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس کو بتایا تھا کہ اب جب طالبان شورش پسندوں کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت ہو رہی ہے۔ اور وہ افغانستان میں امریکی فورسز کی تعداد میں کمی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عظیم قومیں نہ ختم ہونے والی جنگیں نہیں لڑتیں۔
تاہم امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے کہا ہے کہ افغانستان میں اس وقت لگ بھگ 14 ہزار امریکی فوجیوں کی تعداد میں کچھ کمی کے فیصلے کا تعلق امن کی ان کوششوں سے نہیں ہے، بلکہ اس کی بجائے یہ جنرل اسکاٹ ملر کی ایک کوشش کا حصہ ہے، جنہوں نے امریکی وسائل کے بہتر استعمال کے لیے ستمبر میں 17 سال سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ کا چارج سنبھالا ہے۔
اومان کے اپنے دورے میں ایک انٹرویو میں جنرل ووٹل نے کہا کہ جنرل ملر نے فوج کی تعداد میں کمی کی ابتدا یہاں اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد کی ہے اور وہ زمین پر اپنی کارکردگی ہر ممکن طور پر بہتر اور موثر بنانا چاہتے ہیں۔
جنرل ملر کا یہ فیصلہ کئی برسوں کے بعد ان فیصلوں کا الٹ ہے، جن میں امریکی فوج نے ٹرمپ کے پیش رو براک اوباما کے دور میں فوجیوں کی تعداد گھٹانے کی رفتار میں کمی تھی یا اسے مکمل طور پر روکنے کے اقدامات کیے تھے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ اب تک فوجیوں کی تعداد میں کتنی کمی ہو چکی ہے۔ پنٹگان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 14 ہزار کے قریب ہے لیکن اس کا یہ بھی کہنا کہ اس تعداد میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔
دوسرے ذرائع فوجیوں کی تعداد گھٹانے سے متعلق نسبتاً کمتر تخمینے پیش کر رہے ہیں۔ سفارتی ذرائع کا خیال ہے کہ کارکردگی بہتر بنانے کی اس کوشش افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد گھٹ رہی ہے جس پر کابل حکومت کو اعتراض ہے۔
ایک سینیر مغربی سفارت کار نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر خبررساں ادارے روئیٹرز کو بتایا کہ ہم اس صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ جنرل ملر کی اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی خواہش افغانستان میں فوجیوں کی تعداد پر پہلے ہی اثر ڈال رہی ہے۔
جب جنرل ووٹل سے پوچھا گیا کہ آیا جنرل ملر اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے سلسلے میں افغانستان میں ایک ہزار سے زیادہ فوجی کم کر دیں گے تو انہوں نے کہا کہ غالباً وہ ایسا کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ممکن ہے کہ کچھ فوجی افغانستان سے کہیں اور منتقل کر دیے جائیں، جو بوقت ضرورت سمندر پار سے بھی دستیاب ہو سکیں۔
ووٹل نے اس بارے میں کہ جنرل کتنے فوجیوں کو واپس بھیج سکتے ہیں، کسی مخصوص تعداد کا ذکر کیے بغیر کہا کہ یہ ایک کمانڈر کی حیثیت سے ان کا فیصلہ ہو گا کہ وہ اپنی کارکردگی کی بہترین سطح برقرار رکھتے ہوئے دستیاب وسائل کو کس طرح مؤثر انداز میں استعمال کرتے ہیں۔
ملر کے ترجمان فوجی کرنل ڈیو بٹلر نے مستقبل میں فوجیوں کی تعداد کے بارے میں کسی قیاس آرائی سے انکار کیا۔ لیکن انہوں نے کہا کہ ملر کو افغانستان میں جب بھی کسی مشن کے لیے فوجیوں کی تعداد میں اضافے کی ضرورت ہوئی تو وہ انہیں دستیاب ہوں گے۔
کابل اور واشنگٹن کے درمیان گفت و شنید میں اخراجات پر توجہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صدر اشرف غنی نے حال ہی میں ٹرمپ کو ایک خط لکھتا تھا جس میں انہوں نے افغانستان میں امریکی اخراجات میں کمی کی پیش کش کی تھی۔
واشنگٹن کے لیے افغانستان کے سفیر رویا رحمانی کا کہنا تھا کہ طویل عرصے سے اس پر کام کر ہے ہیں کہ اخراجات میں کس طرح مزید کمی کی جا سکتی ہے۔
امریکی عہدے دار گزشتہ سال قطر میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور کر چکے ہیں۔ طالبان کے مذاکرات کار 18 فروری کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اپنے امریکی عہدے داروں سے ملاقات کریں گے۔
امریکی عہدے دار رائٹرز کو بتا چکے ہیں کہ افغانستان میں موجود 14 ہزار امریکی فوجیوں میں سے لگ بھگ نصف کو نکالنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جس سے یہ خدشات پیدا ہوئے ہیں کہ آیا نسبتاً ایک چھوٹی فورس افغان فوج کی مدد کرنے کی اہلیت رکھ سکے گی اور آیا دوسری یورپی ملکوں کے فوجی دستے بھی وہاں سے چلے جائیں گے جن کا انحصار امریکی ہیلی کاپٹروں اور دوسری نوعیت کی معاونت پر ہے۔
اس صورت حال سے یہ سوالات بھی سامنے آئے ہیں کہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے امریکی فوج کی کتنی تعداد امریکہ میں بدستور رہ سکے گی۔
ووٹل نے کہا کہ انہیں فوجی دستوں کی واپسی کے لیے کسی طرح کے احکامات موصول نہیں ہوئے، اس لیے وہ اس موضوع پر کوئی بات نہیں کریں گے۔
امریکہ کے قائم مقام وزیر دفاع پیڑک شناہن نے اس ہفتے ایک ایسی ہی یقین دہانی کا اعادہ کرتے ہوئے جمعرات کے روز نیٹو کے فکر مند اتحادیوں کو بتایا تھا کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کوئی بھی ممکنہ واپسی مربوط طریقہ کار کے تحت ہو گی۔