افغانستان کی جنگ کا پانسہ اب کس طرف پلٹنے والا ہے، اس پر’واشنگٹن پوسٹ‘ کے کالم نگار ڈیوڈ اگنے شیس کہتے ہیں کہ اِس قسم کی جنگوں کا کوئی فوجی حل نہیں ہوتا۔ وہ کہتے ہیں کہ درپیش چیلنج ایسے لوگوں کے درمیان مکالمہ پیدا کرنا ہے جِن کی ایک دوسرے پر انتہا درجے کی بے اعتمادی ہے۔
افغانستان کےلیے کالم نگار کی دانست میں صدر اوباما جس حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہیں، اِس سے دو ایسے پہلو اجاگر ہوتے ہیں جو لیبیا اور شام میں جاری بڑھتی ہوئی خانہ جنگیوں کے لیے سبق آموز ہیں۔ اول یہ کہ اِس مکالمے کو ملک کے اندر لڑنے والے لوگوں کی سرپرستی حاصل ہونی چاہیئے۔ امریکہ ایسے رابطوں کی حوصلہ افزائی کرسکتا ہے۔ لیکن، عملی طور پر اُس کی قیادت افغانستان، لیبیا اور شام کے اپنےعوام کے ہاتھ میں ہونی چاہیئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مکالمے کا دائرہٴ کار علاقائی ہونا چاہیئے، تاکہ برسرِ پیکار فریقوں میں سے کوئی بھی دخل در معقولات کرنے والے پڑوسیوں سے مدد نہ مانگے۔
ڈیوڈ اگنے شیس کہتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ امریکہ کے خفیہ رابطوں میں اِس لیے پیش رفت ہوئی ہے، کیونکہ صدر کرزئی چاہتے ہیں کہ وہ کامیاب ہوں ، اور شاید زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان، پاکستان، روس اور چین بھی اِس امر کی حمایت کرتے ہیں اور ایران بھی خاموشی سے حمایت کرتا ہے اور یہی وہ علاقائی دائرہٴ کار ہے جو امریکی فوجیوں کے انخلا کی راہ ہموار کرے گا۔
افغانستان ہی کی طرح لیبیا اور شام میں بھی صحیح مقصد ایک ایسا عبوری دور ہونا چاہیئے جو نمائندہ اور جمہوری حکومت کی طرف لے جائے جِس میں کم سے کم خون خرابہ ہو۔
کالم نگار کہتے ہیں کہ قذافی اور اسد کے ساتھ مکالمے کا تصور گھناؤنا ضرور ہے، کیونکہ دونوں کے ہاتھ عوام کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، لیکن اِس کے باوجود اِسی راہ پر چلنا قرین مصلحت ہے، بشرطیکہ ایک ایسی جمہوری حکومت کا قیام ممکن ہو جس میں یہ آمر ایک ایسی ٕمخلوط حکومت کو اقتدار سونپیں جس میں سابقہ حکومت کے اصلاح پسند عناصر اور حزب اختلاف دونوں شامل ہوں۔
’وال اسٹریٹ جرنل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق عرب ممالک میں جمہوری تحریک پھیلنے سے سعودی عرب اور ایران کی باہمی رقابت میں اضافہ ہو رہا ہے اور دونوں شام سےلے کر یمن تک اپنے پڑوسی ملکوں میں اپنا اثرو نفوذ بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ ایک طرح کی سرد جنگ ہے۔ تیل اور نظریے کا سہارا لے کر ایران کی شیعہ قیادت اور سعودی سنی شاہی خاندان دنیائے اسلام کی قیادت کے دعوے دار ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے ملک کی حیثیت سےسعودی عرب نے کبھی اپنی توانائی کے اِس ذریعے کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا، لیکن تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اُس نے اوپیک کے ملکوں سے پیداوار بڑھانے پر زور دیا جس کی ایران نے سخت مخالفت کی ہے اور اوپیک دو حصوں میں بٹ گیا ہے۔اب، سعودی عرب جون میں اپنے کوٹے کے علاوہ ایک ملین بیرل فالتو تیل پیدا کرے گا۔
اخبار نے سعودی شہزادے فیصل بن ترکی کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کی وجہ سے تعزیرات کے نتیجے میں ایرانی برآمدات میں جو کمی واقع ہوگی اُس کی سعودی عرب آسانی سے تلافی کرسکتا ہے۔
اخبار ’ہیوسٹن کرانیکل‘ نے ایک اداریے میں امریکہ کے جوہری توانائی پیدا کرنے والی صنعت پر کڑی تنقید کی ہے، کیونکہ ایسو سی ایٹیڈ پریس کی تازہ تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیوکلیئر ریگولیٹری کمیشن نے جوہری بجلی گھر چلانے والوں کے تعاون سے اُن کی حفاظت کے معیاروں کو گھٹا دیا ہے۔ نتیجتاً، بعض ایسے بجلی گھر ابھی تک چل رہے ہیں جنھیں بند ہوجا چاہیئے تھا۔ اخبار کہتا ہے کہ جاپان میں فوکوشیما کے بجلی گھر کے حادثے کے بعد یہ بات خاص طور پر شرمناک ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس سے ایسی صنعت کا مستقبل خطرے میں پڑ رہا ہے جو ملک کو توانائی کے شعبے میں خودکفیل بنانے کے لیے اہم ہے۔