واشنگٹن —
افغانستان نے پاکستان کی جانب سے آٹھ افغان طالبان قیدیوں کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ملک میں جاری امن عمل کے لیے اہم قدم قرار دیا ہے۔
منگل کو دارالحکومت کابل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان ایمل فیضی نے کہا کہ ان کی حکومت کو امید ہے کہ ان قیدیوں کی رہائی سے دیگر طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کرنے میں مدد ملے گی۔
پاکستانی حکام کے مطابق پیر کو رہائی پانے والے قیدیوں میں طالبان حکومت کے وزیرِ انصاف ملا نور الدین ترابی اور ہلمند کے سابق طالبان گورنر عبدالباری کے علاوہ دو دیگر صوبوں کے سابق گورنر اور طالبان دورِ حکومت کے ایک سابق وزیر بھی شامل ہیں۔
اطلاعات ہیں کہ رہائی پانے والوں میں سے ملا ترابی شدید علیل ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق طالبان دورِ حکومت میں وزیرِ انصاف رہنے والے ملا ترابی کو طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کے نائب کی حیثیت حاصل تھی اور انہیں 2009ء کے وسط میں افغان طالبان نے اپنا فوجی کمانڈر بھی نامزد کیا تھا ۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے پیر کو کہا تھا کہ ان قیدیوں کی رہائی کا مقصد افغانستان میں جاری مفاہمتی عمل کو مہمیز دینا ہے۔
افغانستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی اعلیٰ امن کونسل کے سینئر ارکان نے بھی طالبان قیدیوں کی رہائی کا خیر مقدم کیا ہے۔
کونسل کے ایک رکن اسمعیل قاسم یار نے صحافیوں سے گفتگو میں رہائی کو درست سمت میں ایک اچھا قدم قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان افغانستان سے تعلق رکھنے والےمزید طالبان قیدیوں کو بھی رہا کرے گا۔
امن کونسل کے ایک اور رکن معصوم استانکزئی نے کہا ہے کہ افغان حکومت کو امید ہے کہ وہ افغان طالبان کو ایک سیاسی تحریک میں تبدیل کرنے میں کامیاب رہے گی۔
خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ افغان تنازع کے تمام فریقین کو احساس ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ طالبان کے ساتھ کسی ممکنہ مفاہمت کے بارے میں پرامید ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل گزشتہ ماہ بھی پاکستان نے نو طالبان قیدیوں کو رہا کیا تھا لیکن ان میں طالبان کے سابق نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر شامل نہیں تھے۔
ملا برادر کو پاکستانی حکام نے 2010ء میں حراست میں لیا تھا اور بعض اطلاعات کے مطابق طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات میں پیش رفت کی خاطر افغان حکام ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
طالبان قیدیوں کی رہائی کا یہ عمل افغان حکومت کے مطالبے پر شروع کیا گیا ہے جو اسے طالبان کے ساتھ جاری امن مذاکرات میں پیش رفت کے لیے ضروری گردانتی ہے۔
منگل کو دارالحکومت کابل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان ایمل فیضی نے کہا کہ ان کی حکومت کو امید ہے کہ ان قیدیوں کی رہائی سے دیگر طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کرنے میں مدد ملے گی۔
پاکستانی حکام کے مطابق پیر کو رہائی پانے والے قیدیوں میں طالبان حکومت کے وزیرِ انصاف ملا نور الدین ترابی اور ہلمند کے سابق طالبان گورنر عبدالباری کے علاوہ دو دیگر صوبوں کے سابق گورنر اور طالبان دورِ حکومت کے ایک سابق وزیر بھی شامل ہیں۔
اطلاعات ہیں کہ رہائی پانے والوں میں سے ملا ترابی شدید علیل ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق طالبان دورِ حکومت میں وزیرِ انصاف رہنے والے ملا ترابی کو طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کے نائب کی حیثیت حاصل تھی اور انہیں 2009ء کے وسط میں افغان طالبان نے اپنا فوجی کمانڈر بھی نامزد کیا تھا ۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے پیر کو کہا تھا کہ ان قیدیوں کی رہائی کا مقصد افغانستان میں جاری مفاہمتی عمل کو مہمیز دینا ہے۔
افغانستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی اعلیٰ امن کونسل کے سینئر ارکان نے بھی طالبان قیدیوں کی رہائی کا خیر مقدم کیا ہے۔
کونسل کے ایک رکن اسمعیل قاسم یار نے صحافیوں سے گفتگو میں رہائی کو درست سمت میں ایک اچھا قدم قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان افغانستان سے تعلق رکھنے والےمزید طالبان قیدیوں کو بھی رہا کرے گا۔
امن کونسل کے ایک اور رکن معصوم استانکزئی نے کہا ہے کہ افغان حکومت کو امید ہے کہ وہ افغان طالبان کو ایک سیاسی تحریک میں تبدیل کرنے میں کامیاب رہے گی۔
خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ افغان تنازع کے تمام فریقین کو احساس ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ طالبان کے ساتھ کسی ممکنہ مفاہمت کے بارے میں پرامید ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل گزشتہ ماہ بھی پاکستان نے نو طالبان قیدیوں کو رہا کیا تھا لیکن ان میں طالبان کے سابق نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر شامل نہیں تھے۔
ملا برادر کو پاکستانی حکام نے 2010ء میں حراست میں لیا تھا اور بعض اطلاعات کے مطابق طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات میں پیش رفت کی خاطر افغان حکام ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
طالبان قیدیوں کی رہائی کا یہ عمل افغان حکومت کے مطالبے پر شروع کیا گیا ہے جو اسے طالبان کے ساتھ جاری امن مذاکرات میں پیش رفت کے لیے ضروری گردانتی ہے۔