دنیا کے بہت سے ملکوں میں اس وقت انسانی بنیادوں پر مدد کی ضرورت ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے 50 سے زیادہ ملک ایسے ہیں جہاں عام آدمی کے لئے مدد کی ضرورت ہے اور ان ملکوں میں اس وقت سر فہرست افغانستان اور یمن ہیں۔
افغانستان کی تازہ ترین صورت حال کے باعث اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے واالے امدادی ادارے یا دوسرے ادارے فوری توجہ دے رہےہیں کیونکہ وہاں سردی کا موسم قریب آ رہا ہے اور عشروں کی لڑائیوں کی وجہ سے بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگ کے لیے امداد پہنچانا مشکل ہو جائے گا، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں برف باری سے راستے بند ہو جاتے ہیں۔
ملک کی ابتر معاشی صورت حال کی وجہ سے لاکھوں افراد کو خوراک میسر نہیں اور ان کے پاس نہ تو سر چھپانے کا ٹھکانہ ہے اور نہ ہی علاج معالجہ اور زندگی کی بنیادی سہولیات ییں۔
بابر بلوچ پناہ گزینوں کے عالمی ادارے UNHCR کے افغانستان کی انسانی بنیادوں پر مدد کی کوششوں کے کو آرڈینیٹر یا رابطہ کار ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت توجہ افغانستان کے اندر مرکوز ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی 40 ملیں آبادی کے اس ملک میں 35 لاکھ سے زیادہ لوگ اندرونی طور پر بے گھر ہو چکے ہیں۔ اور افغانستان کی آدھی آبادی ایسی ہے جسے امداد کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ قحط سالی کی صورت حال اور کرونا کی تباہ کاریوں نے وہاں ایسے حالات پیدا کردیے ہیں کہ اگر فوری امداد نہ کی گئی تو بڑا انسانی المیہ رونما ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ پاکستان کے تعاون سے زیادہ تر امداد زمینی راستوں سے افغانستان بھیج رہا ہے۔
بابر بلوچ نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے مجموعی طور ہر 600 ملین امریکی ڈالرز کی اپیل کی گئی تھی جو فوری طور پر درکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنیوا کانفرنس میں تقریباً ایک ارب ڈالر دینے کے وعدے کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وعدے فوری طور ہر پورے ہونے چاہئیں تاکہ افغان باشندوں کو بھوک اور افلاس سے بچایا جائے اور ان افغان بچوں کو ،جو ناقص غذائیت کا شکار ہونے کے سبب موت کے دہانے ہر کھڑے ہیں، زندگی کی نوید دی جا سکے۔
اس سوال کے جواب میں کہ امداد پہنچانے میں افغانستان کے اندر انہیں کسی رکاوٹ کا سامنا تو نہیں کرنا پڑتا، انہوں نے کہا کہ صورت حال بہت غیر یقینی اور چیلنج والی ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اب تک تو طالبان یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والے اداروں کی مدد کریں گے، اور انہیں عام لوگوں تک رسائی دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تعاون سے جب ہم امدادی سامان سرحد پار پہنچاتے ہیں تو دوسری جانب یہ سامان ہم اب تک طالبان کی مدد سے پہنچانے میں کامیاب رہے ہیں، لیکن وہاں لوگوں کی ضروریات بہت زیادہ ہیں۔
بابر بلوچ نے کہا کہ امداد زمینی راستوں اور ضرورت ہو تو فضائی راستوں سے بھی پہنچائی جا رہی ہے اور اسلام آباد سے کابل اور افغانستان کے دوسرے شہروں کے لئے ایک لاجسٹک لنک بھی قائم کیا گیا ہے۔ تاکہ بوقت ضرورت فضائی راستے بھی استعمال کیے جا سکیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت انسانی ہمدردی سے متعلق اقوام متحدہ کے سب ادارے سرگرم عمل ہیں اور سب کی کوشش یہی ہے کی افغان باشندوں کی جان اور مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ اور ان کی روز مرہ زندگی کی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں۔
ادھر پاکستان انٹرنیشنل ایر لائینز یا PIA کے مارکیٹنگ اور کارپوریٹ کمیونیکیشن کے شعبے کے سربراہ عبداللہ ایچ خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کا ادارہ امدادی سامان افغانستان پہنچانے اور افغانستان سے نکلنے والے لوگوں کے انخلاء کے کام میں بھرپور تعاون کرہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ورلڈ فوڈ پروگرام نے رابطہ کیا تھا اور ہمارا جہاز ان کا امدادی سامان لے کر، جس میں ادویات وغیرہ بھی تھیں، مزار شریف گیا اور سامان وہاں پہنچایا۔ اور وہ یا کوئی بھی بین الاقوامی ادارہ ہمارا تعاون چاہے گا تو اسے بھرپور تعاون دیا جائے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پی آئی اے، اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے انخلاء پر بھی کام کر رہی ہے جو افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں آٹھ پروازوں کے ذدیعے 1600 افراد کا انخلا کیا گیا۔
عبداللہ خان نے مزید کہا کہ ان کا ادارہ انسانی بنیادوں پر کام کے ساتھ یہ کوشش بھی کر رہا ہے کہ پوری دنیا کے ساتھ افغانستان کا فضائی رابطہ بحال ہو سکے۔