افغانستان میں ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کے ساتھ ہی ملک میں زیرِ تعلیم پاکستانی طلبہ اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم افغان طلبہ بھی طالبان حکومت کی تعلیمی پالیسی کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
افغانستان میں زیرِ تعلیم پاکستانی طلبہ کے ایک وفد نے منگل کو اسلام آباد میں پاکستان میڈیکل کمیشن کے عہدیداروں سے ملاقات کر کے انہیں اپنے مسائل اور مشکلات سے آگاہ کیا۔
پاکستانی طلبہ نے مطالبہ کیا کہ اُنہیں پاکستان کے میڈیکل کالجز میں مائیگریشن کے لیے قوانین میں نرمی لائی جائے۔
افغانستان کے میڈیکل کالج میں زیرِ تعلیم سلیمان شاہ نے اپنے ساتھیوں کو ایک آڈیو پیغام کے ذریعے بتایا ہے کہ ان کی پانچ دیگر ساتھیوں کے ہمراہ منگل کو اسلام آباد میں پاکستان میڈیکل کمیشن کے عہدیداروں کے ساتھ ایک تفصیلی ملاقات ہوئی ہے۔
اُن کے بقول اس اجلاس میں 'پی ایم سی' کے عہدے داروں کو افغانستان کی صورتِ حال سے آگاہ کیا گیا اور اُنہیں بتایا گیا کہ ان حالات میں اُن کے لیے افغانستان میں مزید رہنا اور تعلیم جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔ لہذٰا طلبہ نے اپنے ملک کے تعلیمی اداروں میں مائیگریشن کی قوانین میں نرمی لانے کی اپیل کی ہے۔
پی ایم سی کی جانب سے طلبہ کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ مگر سلیمان شاہ کا دعویٰ ہے کہ پی ایم سی حکام نے یقین دلایا ہے کہ ایک ہفتے کے دوران مائیگریشن کے لیے ٹیسٹ (تحریری امتحان) کے حوالے سے سیلیبس کے بارے میں اجلاس طلب کیا جائے گا اور نومبر کے اواخر میں باقاعدہ طور پر ٹیسٹ ہو گا۔
سلیمان شاہ کا کہنا تھا کہ اس تحریری امتحان کے نتیجے میں پاس ہونے والے طلبہ کو ملک کے سرکاری میڈیکل کالجز میں جگہ دی جائے گی جب کہ دیگر کو نجی میڈیکل کالجز میں داخلہ دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ نجی میڈیکل کالجز میں جگہ پانے والے طلبہ کی مالی معاونت کے لیے وفاقی حکومت سے خصوصی وظائف اور امدادی رقوم کا بھی مطالبہ کیا جائے گا۔
سلیمان شاہ نے بتایا کہ پی ایم سی حکام سے قبل اُنہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مرزا محمد آفریدی اور اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور گل ظفر سے بھی ملاقات کر کے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی، سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین کی جانب سے ان معاملات پر کسی قسم کا بیان جاری نہیں کیا گیا، تاہم محسن داوڑ نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ انہوں نے ان طلبہ کو یقین دلایا ہے کہ وہ اسمبلی اجلاس میں اس مسئلے کو اُٹھائیں گے۔
افغانستان میں اساتذہ کی کمی
جلال آباد کے ایک میڈیکل کالج میں زیرِ تعلیم آخری سال کے طالب عالم کامران خان نے فون پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طالبان کی جانب سے ان پر یا دیگر طلبہ پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے مگر افغانستان کے حالات مکمل طور پر تبدیل ہو چکے ہیں۔
اُن کے بقول زیادہ تر لوگوں کی کوشش ہے کہ وہ افغانستان سے نکل جائیں کیوں کہ کابل اور جلال آباد سمیت تمام تر شہروں اور قصبوں میں تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں شدید متاثر ہوئی ہیں۔
کامران کے بقول میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں سمیت دیگر تعلیمی اداروں سے منسلک بہت سے اساتذہ بیرون ملک چلے گئے ہیں اور جو رہ گئے ہیں وہ گھروں تک محدود ہیں۔
اُن کے بقول ان حالات میں ان کے لیے افغانستان کے تعلیمی اداروں میں تدریس جاری رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔
کامران کا کہنا ہے کہ ان کا اپنے دیگر ساتھیوں جو اس وقت پاکستان میں ہیں کے ساتھ مکمل رابطہ میں ہے اور ان کی کوشش ہے کہ کسی طریقے سے مائیگریشن کر کے پاکستان ہی کے تعلیمی اداروں میں تعلیمی سلسلے کو جاری رکھیں۔
خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر سے تعلق رکھنے والے اعزار بھی کابل ہی کے ایک نجی میڈیکل کالج میں زیرِ تعلیم ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ طالبان کے آنے کے بعد اُنہیں افغانستان میں تعینات پاکستانی سفارت کاروں نے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں مائیگریشن کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
البتہ پاکستانی سفارت خانے سے اعزار سجاد کے اس دعوے کی تائید یا تردید نہیں ہو سکی اور نہ ہی اس حوالے سے سفارت خانے نے کوئی باضابطہ بیان جاری کیا ہے۔
اعزار نے کہا کہ ان سمیت سیکڑوں پاکستانی طلبہ جو افغانستان کے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم ہیں نے مائیگریشن کے تحریری امتحان میں شامل ہونے کے لیے دستاویزات جمع کرا دی ہیں اور آئندہ چند دنوں میں تحریری امتحان یعنی ٹیسٹ کا شیڈول بھی جاری کر دیا جائے گا۔
افغانستان میں پاکستانی طلبہ کی تعداد
کامران خان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم پاکستانی طلبہ کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔
اُن کے بقول سب سے زیادہ طلبہ پاکستان کی سرحد سے ملحقہ شہر جلال آباد کے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم ہیں جب کہ کابل، خوست، گردیز، کنڑ اور اسد آباد کے تعلیمی اداروں میں بھی پاکستانی طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔
ادھر پاکستان کے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم افغان طلبہ بھی افغانستان کے حالات پر پریشان ہیں۔
افغانستان سے تعلق رکھنے والا عصمت خان پشاور کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ میں زیر تعلیم ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد افغانستان ہی سے تعلق رکھنے والے طلبہ اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم ابھی تک ان کے بارے میں طالبان حکومت نے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
حکومت کا مؤقف
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات کامران بنگش نے رابطے پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان میں زیرِ تعلیم پاکستانی طلبہ کی مشکلات سے صوبائی حکومت آگاہ ہے۔
اُن کے بقول طلبہ کے ایک وفد نے اُن سے ملاقات کی تھی جب کہ وفاقی سطح پر افغانستان سے متعلق ایک اجلاس میں بھی خیبر پختونخوا حکومت نے یہ مسئلہ اُٹھایا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ وزارتِ خارجہ کے اعلٰی حکام اور وزیرِ اعظم کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان نے یقین دلایا ہے کہ افغان حکام کے ساتھ بات چیت کر کے اس مسئلے کو حل کیا جائے گا۔
کامران بنگش کا کہنا تھا کہ زیادہ مشکلات وہاں زیرِ تعلیم میڈیکل کالجز کے طلبہ کو ہیں اور وہ مائیگریشن کے خواہاں ہیں لیکن اس میں کئی تیکنیکی مشکلات کا سامنا ہے۔
اُن کے بقول کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن اس معاملے میں کوئی درمیانی راستہ نکالے۔