پاکستان کی ایک قبائلی عدالت کی جانب سے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ملک سے غداری کے جرم میں سنائی جانے والی سزا کے خلاف جمعہ کو اُن کے وکلا نے اپیل دائر کردی ہے۔
قبائلی علاقے خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے اس پاکستانی ڈاکٹر کو 23 مئی کو تحصیل باڑا کے معاون پولیٹیکل ایجنٹ کی عدالت نے متنازع ’فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن‘ کےتحت ریاست مخالف شدت پسندوں سے تعلق کے جرم میں 33 سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔
لیکن کمشنر پشاور، طارق جمیل کے دفتر میں اپیل دائر کرنے کے بعد ڈاکٹر آفریدی کے بھائی نے ایک بار پھر ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ بے گناہ ہیں اور اُنھیں یقین ہے کہ اپیل کا فیصلہ ان کے حق میں ہوگا۔
جمیل آفریدی نے اپنی درخواست میں استدعا کی ہے کہ ان کے بھائی کے خلاف تمام الزامات من گھڑت اور مفرضوں پر مبنی ہیں لہذا ان کی سزا کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر اس مقدمے کو خارج کر دیا جائے۔
قبائلی نظام عدل کے تحت عدالتی فیصلوں کے خلاف اپیل سننے کا اختیار کمشنر پشاور کو ہوتا ہے جو 30 دن کے اندر اس پر فیصلہ سنانے کا پابند ہے۔
جمیل آفرید ی نے کہا کہ اُن کے بھائی کا کالعدم لشکر السلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا ہے بلکہ 2007 میں اس تنظیم کے جنگجوؤں نے اُن کے بھائی کو اغوا کر لیا تھا اور لاکھوں روپے تاوان ادا کرنے کے بعد ہی ڈاکٹر آفریدی کی رہائی ممکن ہوئی۔
پاکستانی حکام نے ڈاکٹر آفریدی کو گزشتہ سال امریکی ذرائع ابلاغ میں آنے والی اُن خبروں کی اشاعت کے بعد گرفتار کیا تھا کہ اُنھوں نے ایبٹ آباد میں القاعدہ کے مفرور لیڈر اُسامہ بن لادن کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے امریکی سی آئی اے کی مدد کے لیے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی ایک جعلی مہم کا انعقاد کیا تھا۔
2 مئی کو امریکی خفیہ آپریشن میں بن لادن کی ہلاکت کے بعد 23 مئی کو ڈاکٹر آفریدی کو حراست میں لے لیے گیا تھا اورایبٹ آباد کمیشن نے اس پر غداری کے جرم میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی تھی۔
طویل خاموشی کے بعد گزشتہ ہفتے خیبر ایجنسی کی ایک عدالت نے ڈاکٹر آفریدی کو33 سال قید کی سزا دینے کا فیصلہ جاری کر دیا، مگر عمومی تاثر کے برعکس اُسے پاکستان مخالف لشکر اسلام نامی شدت پسند تنظیم کی معاونت کرنے کے جرم میں یہ سزا دی گئی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ڈاکڑ آفریدی کے خلاف غیر ملکی جاسوس اداروں سے رابطوں کے ثبوت بھی اس کے سامنے پیش کیے گئے مگر ایسے مقدمات کی سماعت اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔
امریکہ ڈاکٹر آفریدی کی گرفتاری پر روز اول سے تنقید کرتے ہوئے اُس کی رہائی کا مطالبہ کر رہا ہے کیونکہ امریکی عہدے داروں کے بقول اُسامہ بن لادن کی تلاش میں مدد کر کے اس پاکستانی ڈاکٹر نے دونوں ملکوں کے مفاد میں کام کیا ہے اور یہ فعل ملک سے غداری کے زمرے میں نہیں آتا۔
تاہم ناقدین کے بقول قبائلی عدالت کے فیصلے کی تفصیلات منظر عام پر آنے کے بعد امریکی حکام کے لیے ڈاکٹر آفریدی کی رہائی کے حق میں دلائل دینا خاصا مشکل ہوگا۔