پاکستان میں گزشتہ ہفتوں اور مہینوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اور ان میں سے بیشتر واقعات کا ذمہ دار تحریک طالبان پاکستان کو بتایا جاتا ہے جس کی قیادت کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ عرصہ دراز سے افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہے۔
ماہرین کے بقول پہلے اس گروپ کو پاکستان دشمن قوتوں کی جانب سے ہر قسم کی مدد فراہم کی جاتی تھی۔ اور وہ اس قابل تھا کہ پاکستان کے اندر کارروائیاں کر سکے۔ لیکن اب جب کہ افغانستان میں طالبان برسر اقتدار آچُکے ہیں ، جن کی پاکستان بھرپور حمایت کرتا ہے تو ان کے زیر سایہ رہتے ہوئے بھی تحریک طالبان کے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اور افغان طالبان کی جانب سے انہیں اس سے باز رکھنے کی بظاہر کوئی کوشش بھی نظر نہیں آتی، سوائے اس کے کہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ ان کے مذاکرات کرانے کے لئے سہولت فراہم کی، جس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔
تحریک طالبان کے ساتھ نہ صرف پاکستان کی جنگ بندی ختم ہوئی بلکہ پاکستان کے وہ مذاکرات بھی ناکام ہوگئے، جن کا اہتمام اطلاعات کے مطابق افغان طالبان کے توسط سے ہوا تھا۔ اب حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔اس وقت پاکستان کے پاس دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے علاوہ افغانستان کے اندر تحریک طالبان پاکستان کو اس بات پر مجبور کرنے کے لیے کیا راستے ہیں کہ وہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں نہ کریں۔ زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ زیادہ چوائس نہیں ہے۔
احسان غنی، پاکستان کی نیشنل کاؤنٹر ٹیررزم اتھارٹی یا نیکٹا کے سابق سربراہ ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا پاکستان کے پاس اس بارے میں بظاہر کوئی چوائس نہیں ہے، کیونکہ اس وقت طالبان جن حالات سے گزر رہے ہیں اور اندرونی اور بیرونی محاذوں پر انہیں جن حالات کا سامنا ہے، ان میں وہ تحریک طالبان پاکستان جیسے اتحادی کے خلاف کوئی کارروائی کرنے یا انہیں ملک سے نکالنے کے متحمل نہیں ہو سکتےاور وہ پاکستان پر یہ واضح بھی کر چکے ہیں۔
بہت سے ذہنوں میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان ماضی کے اسی دور کی طرف واپس جا سکتا ہے جب ملک میں دہشت گردی عروج پر تھی۔
احسان غنی کا کہنا کہ ایسا قطعی نہیں ہو سکتا اور اس کی وجوہات ہیں۔ اوّل تو یہ کہ اس وقت سب سے بڑا سوال یہ تھا یہ ہماری لڑائی ہے یا ہم دوسروں کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ اس وقت بس یہ تھا کہ خواہ ہماری اپنی غلطیوں کی وجہ سے یا علاقائی اور عالمی پاور پالیٹکس کی وجہ سے ہوا، ہم پر وہ لڑائی مسلط ہو گئی یا کر دی گئی اور ہمیں اس سے نمٹنا ہے۔ اس وقت کے مقابلے میں آج 2022 میں پاکستان کی ایسی صورت حال سے نمٹنے کی صلاحیت اور قوت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
کیا پاکستان کو یہ توقع ترک کردینی چاہئیے کہ تحریک طالبان پاکستان کے معاملے میں اسے افغان طالبان سے کوئی ٹھوس مدد ملے گی۔ احسان غنی نے کہا کہ زیادہ مایوسی کی بات نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت افغان طالبان کے لیے گورننس سے لے کر عالمی امور تک بہت سے محاذ کھلے ہوئے ہیں اور اندرون ملک ان کے لئے سب سے بڑا خطرہ داعش سے ہے۔ اس لیے وہ تحریک طالبان کو ناراض کرکے ایک اور محاذ کھلنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ نہیں کہتے کہ افغان طالبان اس سلسلے میں مدد نہیں کریں گے۔ مگر اس مرحلے پر ان سے توقع کرنا کہ وہ کوئی بڑا اقدام کریں، غیر حقیقت پسندانہ ہوگا۔ ان کا پاکستان پر بڑا انحصار ہے۔ وہ پاکستان کو ناراض نہیں کرنا چاہیں گے۔ وہ یقیناً پاکستان کی مدد کریں گے لیکن وہ اس سلسلے میں ایک حد سے آگے نہیں جائیں گے۔
پاکستان میں جہاں معاشی صورت حال اس وقت خراب ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی صورت حال بھی اچھی نہیں ہے۔ دہشت گردی کے یہ نئے واقعات کیا بیرونی سرمایہ کاری کو آنے سے روکنے کا سبب نہیں بنیں گے؟ ماہرین کہتے ہیں کہ اس کے امکانات بہت ہیں۔
بریگیڈیر عمران ملک سیکیورٹی کی امور کے ماہر ہیں۔ وہ اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایسی صورت حال کسی بھی ملک کی معیشت کے لئے اچھی نہیں ہوتی ہے۔ لیکن انہوں کہا اس وقت پاکستان اس قسم کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔ اور اب دہشت گردوں کو پاکستان میں کوئی جائے پناہ نہیں مل سکے گی، اور دہشت گردی کے ان واقعات میں زیادہ تر تحریک طالبان پاکستان کا ہاتھ ہے۔ بقول ان کے افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد بڑی حد تک ان پاکستان دشمن قوتوں کی مدد اور حمایت کھو بیٹھے ہیں جو ماضی میں ان کو مدد فراہم کرتےتھے۔ طالبان بھی ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ افغان سرزمین کو کسی پر حملے کے لیے استعمال نہیں کرسکتے اور وہ مایوسی کے عالم میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔
ان کا خیال تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جو مذاکرات کیے گئے وہ نہیں ہونے چاہئیں تھے کیونکہ پاکستان ایک بڑا ملک اور جوہری طاقت ہے اور جب اس نے ٹی ٹی پی سے بات کی تو اس نے اسے پاکستان کی کمزوری سے تعبیر کیا جو کہ ایک غلط تاثر تھا اور اب اسی خیال کے تحت وہ حملے کر رہے ہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان جتنا کچھ طالبان کے لیے کر رہا ہے اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ طالبان ان جرائم کی پاداش میں جو تحریک طالبان پاکستان نے پاکستان کے خلاف کیے انہیں پاکستان کے حوالے کر دیتا ۔ ایسا کیوں نہیں ہو رہا اس بارے میں بریگیڈیر عمران ملک کا کہنا تھا کہ اگر طالبان کی تاریخ اور روایات پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلے گا کہ وہ اپنی پناہ میں آئے ہوئے لوگوں کو کسی کے حوالے نہیں کرتے۔ اور اس کی مثال ملا عمر نے اس وقت پیش کی جب انہوں نے اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا افغانستان پر حملہ ہوا۔ طالبان کی حکومت ختم ہو گئی۔ ملک تباہی سے دو چار ہو گیا مگر طالبان نے اپنی روایت سے انحراف نہیں کیا۔ اوریقینًا وہ اب بھی ایسا ہی کریں گے۔
پاکستان ٹی ٹی پی سے کس طرح نمٹتا ہے؟ افغان طالبان آنے والے دنوں میں کیا کردار ادا کریں گے؟ مبصرین کے بقول اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ خود طالبان اپنے حالات کب درست کر سکیں گے۔