امریکہ میں نوجوان نسل کو سگریٹ نوشی کی لت صحت کے اعتبار سے کھوکھلا کر رہی ہے۔
امریکی جریدے 'امریکن جرنل آف پریوینٹیو میڈیسن' کی رپورٹ کے مطابق سگریٹ کے ساتھ ساتھ ای سگریٹ سے ان لوگوں میں پھیپھڑوں کے مرض کا خطرہ ایک تہائی حد تک بڑھ جاتا ہے جو کبھی تمباکو نوشی نہیں کرتے جب کہ وہ افراد جو ای سگریٹس کے ساتھ تمباکو نوشی بھی جاری رکھتے ہیں ان میں بیماریوں کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
نوجوان نسل کی صحت کو بچانے کی غرض سے ہی امریکہ میں گزشتہ ہفتے کانگریس کی جانب سے نافذ کردہ نئے قانون کے تحت اب 21 سال سے کم عمر کا کوئی بھی فرد قانونی طور پر سگریٹ، سگار یا تمباکو نوشی سے متعلق دیگر مصنوعات نہیں خرید سکتا.
امریکی خبر رساں ادارے 'اے پی' کے مطابق اس پابندی کا اطلاق الیکٹرونک سگریٹ اور واپنگ مصنوعات پر بھی ہوگا۔ واپنگ کے ذریعے نکوٹین کا استعمال کیا جاتا ہے۔
خلاف قانون دکانوں پر تمباکو فروخت کرنے والوں پربھاری جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے یا ایسی دکانوں کو سیل بھی کیا جاسکتا ہے۔
نوجوان نسل میں تمباکو نوشی کے مخالف افراد کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کو تمباکو کے حصول میں زیادہ سے زیادہ رکاوٹیں ڈالی جانی چاہئیں۔ خاص طور پر ہائی اسکول کے طلباء جن کے 18 سال سے زیادہ عمر کے دوست یا ہم جماعت انہیں سگریٹ خریدنے میں مدد فراہم کرتے تھے وہ اب خود بھی اس پابندی کی وجہ سے سگریٹ نوشی سے باز رہیں گے۔
امریکہ بھر میں سگریٹ اور سگار پینے کی قانونی حد 18 سے بڑھا کر 21 سال کرنے کا منصوبہ کانگریس کی جانب سے منظور کیے جانے والے اخراجاتی بل میں شامل تھا، 20 دسمبر کو صدر نے اس پر دستخط کیے تھے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ تمباکو نوشی سے ہر سال 80 لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اگر تمباکو نوشی پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے تو اتنی بڑی تعداد میں انسانی جانوں کو بچایا جا سکتا ہے۔
'فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن' کے ڈاکٹر اسٹیفن نے گذشتہ ہفتے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ نئے قانون کا نفاذ عمومی طور پر اتنی جلد نہیں ہوتا چونکہ یہ نوجوان نسل کو سگریٹ نوشی سے تیزی سے بچانے اور ان کی صحت کا معاملہ ہے اس لیے یہ فوری طور پر نافذ العمل ہو گیا ہے۔
فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے 2009 سے تمباکو نوشی سے متعلق قانون سازی پر زور دیا جاتا رہا ہے۔
امریکی ادارے 'سی ڈی سی' کے مطابق امریکہ میں ہائی اسکول کے 27.5 فی صد سے زائد طلبہ ای سگریٹ استعمال کرتے ہیں جب کہ 2018 میں یہ شرح 20.7 فی صد تھی۔