پاکستان کے صوبے پنجاب کے ضلع سیالکوٹ میں مبینہ طور پر مشتعل مظاہرین نے جماعت احمدیہ کی ایک عبادت گاہ کو منہدم کر دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق اس عبادت گاہ کو بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب گرایا گیا اور واقعے کے وقت عبادت گاہ میں کوئی شخص موجود نہیں تھا۔
جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں دعویٰ کیا ہے کہ سیالکوٹ کے کشمیر محلے میں اُن کی جس عبادت گاہ کو گرایا گیا وہ 100 سال پرانی عمارت تھی اور اس کے قریب احمدیہ برادری کے افراد کے کچھ گھر بھی ہیں۔
سلیم الدین نے بتایا کہ بعض مشتعل افراد نے نصف شب کے قریب حملہ کرکے اُن کی عبادت گاہ کو منہدم کرنے کا سلسلہ شروع کیا جو سحری تک جاری رہا۔ ان کے بقول، "انتظامیہ بھی پاس تھی، پولیس بھی پاس تھی، کسی نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔"
مقامی لوگوں کا موقف ہے کہ احمدیہ برادری عبادت گاہ سے ملحق ایک قدیم مکان میں اپنا عجائب گھر بنا رہی تھی اور اسی بنا پر نہ صرف اُس مکان میں توڑ پھوڑ کی گئی بلکہ عبادت گاہ کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔
احمدیہ برداری کے ترجمان کے بقول مکان میں کوئی عجائب گھر نہیں بنایا جا رہا تھا اور بعض انتہا پسندوں نے اس الزام کی بنیاد پر لوگوں کو مشتعل کیا۔
ایک مقامی پولیس اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ پولیس کی نفری تو عبادت گاہ کے باہر تعینات تھی لیکن اس کی تعداد اتنی نہیں تھی کہ وہ مشتعل مظاہرین کو روک سکتی۔
پاکستان کے آئین میں 1974ء میں کی جانے والی ایک ترمیم میں احمدیہ برادری کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے اس فرقے کے لوگ امتیازی سلوک کی شکایت کرتے رہے ہیں۔
پاکستان کے قانون کے تحت احمدی خود کو مسلمان اور اپنی عبادت گاہوں کو مسجد نہیں کہلا سکتے۔ ایسا کرنے کی صورت میں ان کے لیے قانون میں قید کی سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔
جماعت احمدیہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ احمدی برداری کے افراد کو مذہب کی بنیاد پر معاشرے میں امتیازی سلوک کا سامنا رہا ہے جس کے دوران بعض اوقات انہیں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلیم الدین کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال پاکستان میں جماعت احمدیہ کے 70 سے زائد افراد کے خلاف امتیازی قوانین کی بنیاد پر مقدمات درج کیے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ ان میں سے نو افراد ملک کی مختلف جیلوں میں بند ہیں جب کہ چار احمدی افراد کو ان کے عقیدے کی بنیاد پر ہدف بنا کر قتل کر دیا گیا۔