پاکستان کی احمدی برداری نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں احمدیوں کے خلاف ناصرف تشدد کے واقعات جاری رہے بلکہ بعض مبینہ امتیازی قوانین کی وجہ سے وہ انتخابی عمل میں حصہ نا لینے پر مجبور ہیں۔
اتوار کو وائس امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین نے کہا کہ احمدی برداری کے خلاف وضح کئے گئے امتیازی قوانین سماجی سطح پر اُن کیلئے عدم تحفظ کا سبب بن رہے ہیں۔
سلیم الدین نے مزید کہا کہ وہ ایک عرصے سےحکومت سے ایسے امتیازی قوانین کے خاتمے کا مطا لبہ کرتے آ رہے ہیں تاکہ وہ بغیر کسی امتیاز اور خوف کے انتخابی عمل میں حصہ لے سکیں۔
"ظاہر ہے کہ مشترکہ انتخابی عمل کے لیے ایک ہی ووٹر لسٹ بننی چاہیے لیکن اب المیہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کو الیکشن کے عمل سے باہر رکھنے کے لیے دو فہرستیں بنائی جاتی ہیں یعنی ایک ایسی فہرست ہے جس میں تمام مسلمان، ہندو، سکھ اور مسیحی شامل ہیں جبکہ احمدیوں سے امتیاز روا رکھتے ہوئے ایک الگ ووٹر لسٹ بنائی جاتی ہے۔"
دوسری طرف پاکستان کے وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف بشیر ورک کا کہنا ہے کہ ملک کی دیگر اقلیتی برادریوں کی طرح احمدی براداری پر بھی انتخابی عمل میں حصہ لینے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا "یہ تو اپنا ووٹ ہی رجسٹر نہیں کرواتے ہیں۔ مسیحی اور ہندو بھی اپنے ووٹوں کا اندراج کرواتے ہیں۔ لیکن ابھی تک احمدی افراد نے بطور غیر مسلم اپنے ووٹوں کو اندراج نہیں کرواتے ہیں حالانکہ وہ قانون کے تحت ایسا کرنے کے پابند ہیں۔ لیکن یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ بطور ووٹر رجسٹر نہیں ہوں گے۔"
پاکستان میں احمدی آئینی طور پر غیر مسلم ہیں اور اس برادری کے لوگ خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔ ایسا کرنے کی صورت میں ان کے لیے قانون کے تحت قید کی سزائیں ہیں۔
جماعت احمدیہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ احمدی برداری کے افراد کو مذہب کی بنیاد پر معاشرے میں امتیازی سلوک کا سامنا رہا ہے اور بعض اوقات انہیں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔
تاہم حکومت میں شامل عہدیدار یہ کہتے رہے ہیں کہ ملک میں انتہاپسندی کی وجہ سے ملک میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد متاثر ہوئے۔
تاہم وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف بشیر محمود ورک کا کہنا ہے کہ حکومت تمام اقلیتی برداریوں کو تحفظ فراہم کرنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔
"میں تو ہر جگہ یہ کہتا ہوں کہ یہاں (پاکستان) کی اکثریت مسلمان ہے۔ ان کا فرض ہے جو اقلیت (برادری) ہے ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کریں۔ آئین بھی یہ کہتا ہے، قانون بھی یہ کہتا ہے اور ہماری پالیسی بھی یہ ہے اور ہم اس پر عمل کر رہے ہیں اور ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرنا ہمار منشور کا حصہ ہے۔"
سلیم الدین کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں جماعت احمدیہ کے 70 سے زائد افراد کے خلاف امتیازی قوانین کی بنیاد پر مقدمات درج کئے گئے اور ان میں سے 9 افراد ملک کی مختلف جیلوں میں بند ہیں جبکہ کے چار احمدی افراد کو ان کے عقیدے کی بنیاد پر ہدف بنا کر قتل کر دیا گیا۔