کراچی سمیت سندھ بھر کے سیکس ورکرز میں ایڈز اور ایچ آئی وی سے متعلق آگاہی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب وہ بہت حد تک اس بات سے آگاہ ہیں کہ انہیں کن طریقوں سے خود کو ایچ آئی وی ایڈز یا اسی قسم کی دوسری خطرناک بیماریوں سے کس طرح بچا یاجاسکتا ہے۔
جیلوں میں ایڈز سے بچاوٴ کا منفرد منصوبہ
اس آگاہی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومتی سطح کے ساتھ ساتھ غیرسرکاری تنظیمیں بھی اس جانب دن رات کام کررہی ہیں۔صوبہٴ سندھ میں تو حکومت نے ایچ آئی وی اور ایڈز سے بچاوٴ کے لئے ایک اور منفرد اقدام اٹھاتے ہوئے جیلوں میں بند قیدیوں کو ان بیماریوں سے آگاہی کی سہولت فراہم کردی ہے اور اس کام میں حکومت کے ہم قدم ہے ’سکھر بلڈاینڈ ڈرگ ڈونیٹنگ سوسائٹی‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم۔
اس تنظیم کی ایک عہدیدار اورماہر نفسیات صدف رحمٰن نے’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی بات چیت میں انکشاف کیا کہ، ’کراچی کی جیلوں میں قید زیادہ تر خواتین سیکس ورکر کم عمر ہیں۔ ان کی عمریں چودہ سال سے 25سال کے درمیان ہیں۔ بیشتر خواتین سندھ کے چھوٹے چھوٹے علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہیں ملازمت دلانے کا لالچ دے کر کراچی لایا گیا اور زبردستی ’سیکس ورکر‘ بنا دیا گیا۔ لیکن، اچھی بات یہ ہے کہ یہ خواتین سیکس سے جڑی بیماریوں اور ان سے بچاوٴ کی تدابیر سے آگاہ ہیں اور ان پر پوری طرح عمل بھی کرتی ہیں‘۔
صدف رحمٰن اپنی سوسائٹی کی جانب سے گزشتہ کئی سالوں سے کراچی جیل میں ان خواتین کی کاؤنسلنگ کررہی ہیں جو یا تو سیکس ورکر ہیں یا پھر ایڈز کے مرض میں مبتلا ہیں ۔صدف ایسی خواتین قیدیوں کی پری ٹیسٹ کاؤ نسلنگ اور پوسٹ ٹیسٹ کاؤنسلنگ کرتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ میڈیا کی آزادی سے اس مرض کے بارے میں آگاہی میں سب سے زیادہ مدد مل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر قیدی سیکس ورکرز ایچ آئی وی پوزیٹیو نہیں ہوتیں۔
ایک سوال کے جواب میں صدف نے بتایا کہ صرف وہ سیکس ورکر ایڈز کا شکار ہوئیں جنہیں اس مرض سے بچنے کے طریقے معلوم نہیں تھے۔ البتہ، اب وہ اسے کنٹرول کرنے کے لئے کوشاں ہیں اور جو احتیاطی تدابیر انہیں سوسائٹی بتاتی ہے وہ انہیں اختیار کرتی ہیں۔
صدف کا کہنا ہے کہ کچھ ایسی بھی خواتین ہیں جو یہ کام چھوڑنا چاہتی ہیں لیکن وہ اس گھناؤنے دھندے میں اس حد تک پھنس چکی ہوتی ہیں کہ چاہ کر بھی اسے چھوڑ نہیں سکتیں۔ البتہ، اب وہ سختی کے ساتھ احتیاطی تدابیر اختیار کرتی ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ سیکس ورکرز صرف ایڈز یا ایچ آئی وی کا ہی شکار نہیں ہوتے بلکہ ایسی کم ازکم نو بیماریاں ہیں جو خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ ان میں سیکوئلی ٹرانس میٹیڈ انفیکشن یا ایس ٹی آئی بھی شامل ہے۔ ایس ٹی آئی ایک ایسا انفیکشن ہے جس سے متاثر عورت ماں بننےکے قابل نہیں رہتی۔ دوسرے اس سے ایچ آئی وی کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ حکومت سندھ کے جیلوں میں ایچ آئی وی/ایڈز سے بچاوٴ کے منصوبے سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہورہا ہے کہ اس کے مریضوں کی تعداد بڑھناتقریباً بند ہوگئی۔
’وی او اے‘ کے استفسار پر صدف نے مزید بتایا کہ کراچی میں خواجہ سراوٴں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ یہ لوگ خواتین کے مقابلے میں زیادہ آگاہی رکھتے ہیں۔
صدف نے بتایا کہ ان کی سوسائٹی نے ’ٹرکرز‘ کے نام سے مختلف شہروں میں کلینکس کھول رکھے ہیں۔ کراچی میں ماڑی پور ٹرک اڈے پر بھی ایک کلینک موجود ہے جہاں سیکس کے حوالے سے مختلف ایشوز پر کاؤنسلنگ کی جاتی ہے۔ان کی بدولت اب ان مردوں اور بچوں میں بھی اسی بیماری سے متعلق آگاہی میں اضافہ ہورہا ہے۔
جیلوں میں ایڈز سے بچاوٴ کا منفرد منصوبہ
اس آگاہی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومتی سطح کے ساتھ ساتھ غیرسرکاری تنظیمیں بھی اس جانب دن رات کام کررہی ہیں۔صوبہٴ سندھ میں تو حکومت نے ایچ آئی وی اور ایڈز سے بچاوٴ کے لئے ایک اور منفرد اقدام اٹھاتے ہوئے جیلوں میں بند قیدیوں کو ان بیماریوں سے آگاہی کی سہولت فراہم کردی ہے اور اس کام میں حکومت کے ہم قدم ہے ’سکھر بلڈاینڈ ڈرگ ڈونیٹنگ سوسائٹی‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم۔
اس تنظیم کی ایک عہدیدار اورماہر نفسیات صدف رحمٰن نے’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی بات چیت میں انکشاف کیا کہ، ’کراچی کی جیلوں میں قید زیادہ تر خواتین سیکس ورکر کم عمر ہیں۔ ان کی عمریں چودہ سال سے 25سال کے درمیان ہیں۔ بیشتر خواتین سندھ کے چھوٹے چھوٹے علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہیں ملازمت دلانے کا لالچ دے کر کراچی لایا گیا اور زبردستی ’سیکس ورکر‘ بنا دیا گیا۔ لیکن، اچھی بات یہ ہے کہ یہ خواتین سیکس سے جڑی بیماریوں اور ان سے بچاوٴ کی تدابیر سے آگاہ ہیں اور ان پر پوری طرح عمل بھی کرتی ہیں‘۔
صدف رحمٰن اپنی سوسائٹی کی جانب سے گزشتہ کئی سالوں سے کراچی جیل میں ان خواتین کی کاؤنسلنگ کررہی ہیں جو یا تو سیکس ورکر ہیں یا پھر ایڈز کے مرض میں مبتلا ہیں ۔صدف ایسی خواتین قیدیوں کی پری ٹیسٹ کاؤ نسلنگ اور پوسٹ ٹیسٹ کاؤنسلنگ کرتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ میڈیا کی آزادی سے اس مرض کے بارے میں آگاہی میں سب سے زیادہ مدد مل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر قیدی سیکس ورکرز ایچ آئی وی پوزیٹیو نہیں ہوتیں۔
ایک سوال کے جواب میں صدف نے بتایا کہ صرف وہ سیکس ورکر ایڈز کا شکار ہوئیں جنہیں اس مرض سے بچنے کے طریقے معلوم نہیں تھے۔ البتہ، اب وہ اسے کنٹرول کرنے کے لئے کوشاں ہیں اور جو احتیاطی تدابیر انہیں سوسائٹی بتاتی ہے وہ انہیں اختیار کرتی ہیں۔
صدف کا کہنا ہے کہ کچھ ایسی بھی خواتین ہیں جو یہ کام چھوڑنا چاہتی ہیں لیکن وہ اس گھناؤنے دھندے میں اس حد تک پھنس چکی ہوتی ہیں کہ چاہ کر بھی اسے چھوڑ نہیں سکتیں۔ البتہ، اب وہ سختی کے ساتھ احتیاطی تدابیر اختیار کرتی ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ سیکس ورکرز صرف ایڈز یا ایچ آئی وی کا ہی شکار نہیں ہوتے بلکہ ایسی کم ازکم نو بیماریاں ہیں جو خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ ان میں سیکوئلی ٹرانس میٹیڈ انفیکشن یا ایس ٹی آئی بھی شامل ہے۔ ایس ٹی آئی ایک ایسا انفیکشن ہے جس سے متاثر عورت ماں بننےکے قابل نہیں رہتی۔ دوسرے اس سے ایچ آئی وی کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ حکومت سندھ کے جیلوں میں ایچ آئی وی/ایڈز سے بچاوٴ کے منصوبے سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہورہا ہے کہ اس کے مریضوں کی تعداد بڑھناتقریباً بند ہوگئی۔
’وی او اے‘ کے استفسار پر صدف نے مزید بتایا کہ کراچی میں خواجہ سراوٴں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ یہ لوگ خواتین کے مقابلے میں زیادہ آگاہی رکھتے ہیں۔
صدف نے بتایا کہ ان کی سوسائٹی نے ’ٹرکرز‘ کے نام سے مختلف شہروں میں کلینکس کھول رکھے ہیں۔ کراچی میں ماڑی پور ٹرک اڈے پر بھی ایک کلینک موجود ہے جہاں سیکس کے حوالے سے مختلف ایشوز پر کاؤنسلنگ کی جاتی ہے۔ان کی بدولت اب ان مردوں اور بچوں میں بھی اسی بیماری سے متعلق آگاہی میں اضافہ ہورہا ہے۔