رسائی کے لنکس

پاکستانی کشمیر میں ایڈز سے بچاؤ کی بھرپور آگاہی مہم


سرکاری اعداد و شمار کے مطابق محکمہ صحت کے پاس ایڈز کے صرف ڈیڑھ سو مریضوں کا اندراج ہے۔

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ بیرونی ممالک سے ایڈزکا شکار ہو کر واپس آنے والوں کی طرف سے تشخیص کے بجائے مرض کو چھپانے کی وجہ سے یہ موذی مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔

دارالحکومت مظفرآباد میں قائم مرکزی یونیورسٹی کے شعبہ مائیکرو بیالوجی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالرؤف نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بیرون ملک سے ایڈز کے وائرس سے متاثر ہو کر وطن واپس آنے والوں کی ایڈز سیکریننگ اور خون ٹیسٹ نہ ہو کی وجہ سے ان کے بقول ایک اندازے کے مطابق پاکستانی کشمیر میں ایڈز میں مبتلا ایک ہزار مریض ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق محکمہ صحت کے پاس ایڈز کے صرف ڈیڑھ سو مریضوں کا اندراج ہے۔

ڈاکٹر رؤف نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر پاکستانی کشمیر میں ایڈز سے متاثرہ مریضوں کی تشخیص کرنے کے لیے بروقت اقدام نہ کیا گیا تو یہ تعداد آئندہ آنے والے برسوں میں کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔

یونیورسٹی کے طلبا و طالبات نے رضاکارانہ طور پر پاکستانی کشمیر کے مختلف علاقوں میں ایڈز اور کالا یرقان کہلوانے والے ہیپاٹائٹس کی تشخیص اور بچاؤ کے لیے مہم شروع کر رکھی ہے جس میں اب تک 30 ہزار سے زائد لوگوں کے بلامعاوضہ خون کے تجزیے کیے گئے ہیں۔

ڈاکٹر رﺅف نے بتایا کہ ایڈ اور ہیپاٹائٹس کے وائرس کے پھیلاؤ میں جہاں دیگر کئی ذرائع کارفرما ہیں وہیں حجاموں کی طرف سے حفظان صحت کو مناسب خیال نہ رکھنا بھی ایک بڑا سبب ہے۔

یونیورسٹی کی طرف سے دس روزہ تربیتی ورکشاب منعقد کی گئی جس میں خاص طور پر حجاموں کو اپنے کام کے اوزاروں کو جراثیم سے پاک کرنے کی تربیت اور اس سے متعلق مشینیں بھی مہیا کی گئیں۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان موذی امراض سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اس بارے میں آگاہی فراہم کی جائے اور یہ حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ اپنے خون کا تجزیہ کروائیں تاکہ موذی وائرس کی بروقت تشخیص سے اس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

ڈاکٹر رؤف کا کہنا تھا ان کی یونیورسٹی نے ہدف مقرر کیا ہے کہ رواں سال کے اواخر تک اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ مظفرآباد شہر میں حجاموں کی وجہ سے کوئی شخص موذی وائرس کا شکار نہ ہو۔

XS
SM
MD
LG