رسائی کے لنکس

'بہو ہو تو ایسی جو گھر بھی سنبھالے اور کما کر بھی لائے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

شادی ایک ایسا اہم کام ہے جسے مبصرین کےمطابق پاکستانی معاشرے میں سطحی معیارات، لالچ، بے جا خواہشات، انا اور غیر مناسب توقعات کی وجہ سے انتہائی پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔

ہم نے اور آپ نے اپنے اطراف ایسے بہت سے خاندان دیکھے ہوں گے جو یا تو گھر گھر جا کر "بہو کی شاپنگ" کر رہے ہوتے ہیں یا بیٹی کو بیاہنے کی خواہش میں آئے روز مہمانوں کی خدمت۔

اس ہفتے وی او اے کے ہفتہ وار پروگرام ع-مطابق میں اسی کو موضوع گفتگو بنایا گیا اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ آیا وقت کے ساتھ ساتھ رشتہ ڈھونڈنے کا طریقہ کار آسان ہوا ہے یا مزید مشکل؟ پروگرام کے مہمانوں میں کئی دہائیوں سے میرج بیورو کا بزنس کرنے والی مسز خان اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن عطیہ عباس شامل تھیں۔

ع-مطابق ہر پیر کو وائس آف امریکہ کے فیس بک اور یو ٹیوب پر نشر کیا جاتا ہے۔ آپ نیچے دیے گئے لنک پر کلک کر کےاس ہفتے کا پروگرام دیکھ سکتے ہیں۔

شادی سنگت اور رفاقت کا نام ہے۔ ایسا شریک حیات پانا جس سے ذہنی ہم آہنگی ہو، جو دکھ سکھ کا ساتھی ہو۔ جو ہماری خوشی کو اہمیت دے اور ہم اس کی۔ مگر ایسا ساتھی کہاں تلاش کریں؟

مغربی معاشرے میں یہ کام مرد اورعورت خود انجام دیتے ہیں تو پاکستان جیسے مشرقی معاشرے میں دہائیوں سے یہ کام والدین کے سپرد رہا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ رشتہ تلاش کرنے کے عمل میں لڑکا اور لڑکی کی پسند کم اور والدین کی فرمائشیں زیادہ ہوتی ہیں۔

اور یہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں۔ دنیا کی مختلف ثقافتوں میں شادی کو جتنی اہمیت دی جاتی ہے اس کے وقوع پذیر ہونے کے عمل کو اتنا ہی مشکل بنا دیا گیا ہے۔ کسی معاشرے میں مرد جب تک علیحدہ گھر نہ لے شادی نہیں ہوتی، تو کہیں لڑکی کو تب ہی بہو بنایا جاتا ہے جب وہ گھر جہیز میں لائی گئی نت نئی قیمتی چیزوں سے بھر دے۔

کہیں شادی کے لیے لڑکی کے والدین کو خطیر رقم دی جاتی ہے تو کہیں لڑکوں کی بولی لگتی ہے، جتنا قابل لڑکا ہوگا لڑکی والوں کو جہیز میں اسی حساب سے لڑکے کو رقم دینا ہوگی۔

پاکستان میں لڑکی کے دبلے جسم، گوری رنگت کو اہمیت حاصل ہے تو لڑکے کی مالی حیثیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا۔

یہاں نسل در نسل لڑکیاں ٹرالیوں میں لوازمات سجائے اپنےرشتے کے لیے آئے مہمانوں کے سامنے پیش ہوتی رہی ہیں۔ دیکھنے والوں کی چبھتی نگاہیں کسی جوہری کی طرح ان کی رنگت، ہاتھ پیروں کی خوبصورتی، قد، ناک نقشہ،دانت، بال وغیرہ جانچنے کے ساتھ ساتھ چاروں طرف نظریں دوڑا کر اس بات کو بھی بھانپ لیتی ہیں کہ اس گھر سے ان کے اپنے گھر تک لڑکی کے ساتھ اور کتنا 'مال' آ سکتا ہے۔

دوسری طرف لڑکے بھی اکثر یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ گھر کرایے کا ہو یا گاڑی کے بجائے بائیک ہو تو وہیں رشتہ ریجیکٹ ہوجاتا ہے۔ کم پڑھے لکھے لڑکوں یا مالی طور پر غیر مستحکم لڑکوں کو بھی لوگ بیٹیاں دینا پسند نہیں کرتے اور بھرے پرے خاندانوں سے بھی دور بھاگتے ہیں۔

خوب سے خوب تر کی اس تلاش میں کتنے ہی لڑکوں اور لڑکیوں کی عزت نفس مجروح ہو چکی ہے اور نہ جانے کتنی ہی لڑکیاں آج تک اپنے والدین کے گھر بیٹھی ہیں۔

کراچی میں کئی دہائیوں سے میرج بیورو کا بزنس کرنے والی مسز خان کہتی ہیں کہ لڑکیاں دیکھنے جانے والے ماضی کے رواج میں اب کچھ تبدیلی آئی ہے۔ اب بہت سے والدین یہ پسند نہیں کرتے کہ لڑکے والوں کی طرف سے کئی مرحلوں میں بار بار مہمان آتے رہیں اور ان کی بیٹی کی نمائشی پریڈ ہوتی رہے۔ اس لیے اب اکثر ملاقاتوں میں لڑکے بھی ساتھ ہی آجاتے ہیں تاکہ دونوں ہی ایک دوسرے کو دیکھ لیں۔

مسز خان
مسز خان

اب تو بڑی تعداد میں شہروں میں لڑکیاں ملازمتیں بھی کرتی ہیں۔ محبت کی شادی کا رواج بھی بڑھ گیا ہے تو کیا روایتی میچ میکنگ میں کوئی کمی آئی ہے؟

اس پر مسز خان کا کہنا تھا کہ رشتے تلاش کرنے کا کام شاید کبھی آؤٹ آف سیزن نہ ہو کیوں کہ بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ خون کے رشتے بھی تبدیل ہوچکے ہیں، لوگ خاندان سے باہر شادی کو ترجیح دیتے ہیں اسی طرح رشتہ دار بھی رشتہ تلاش کرنے میں ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے اس لیے لا محالہ والدین میچ میکنگ سروسز کا رخ کرتے ہیں۔

مسز خان کہتی ہیں وقت کے ساتھ ساتھ لڑکے اور لڑکی والوں کی ڈیمانڈز تبدیل ضرور ہوئی ہیں مگر ان میں کمی نہیں آئی۔ان کے بقول "لوگ ایک بار جہیز لانے والی بہو کے بجائے اب ایسی بہو چاہتے ہیں جو پڑھی لکھی ہو اور گھر کے معاملات میں مالی طور پر معاونت کر سکے۔ لیکن یہ بہو کمانے کے ساتھ ساتھ گھر کے مکمل انتظامات سنبھالنا بھی جانتی ہو کیوں کہ مرد لاابالی ہوتا ہےاور گھر تو بہرحال عورت کو ہی دیکھنا ہوتا ہے۔"

خواتین کے حقوق کی کارکن عطیہ عباس رشتے تلاش کرنے کے اس طریقے کو پدر شاہی نظام کا تسلسل قرار دیتی ہیں۔ ان کے مطابق جب تک معاشرے میں عورتوں اور مردوں کو صنفی کرداروں میں دیکھا جائے گا جہاں مرد کمانے والا اور عورت مالی معاملات کے سوا باقی تمام انتظامات چلانے والی ہوگی تو پھر مرد کو اس کی دولت اور عورت کو سگھڑ پن اور خوبصورتی میں ہی تولا جاتا رہے گا۔

عطیہ عباس
عطیہ عباس

عطیہ عباس کے مطابق جنہیں شادی کرنی ہے، پسند کرنے اور شادی کے فیصلے کا مکمل اختیار انہی کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ نوجوانوں کو اپنے اس حق کے لیے کھڑا ہونا ہوگا۔

لیکن روایتی طریقہ اگر قابل قبول اور قابل عمل نہیں ہے تو اور کونسا طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے؟ پاکستانی نوجوان آج اگر مغربی طرز کے ڈیٹنگ کے طریقہ کار کو ترجیح دیتے ہیں جہاں پہلی ملاقات ایک اجنبی سے ہی ہوتی ہے اور وہاں بھی مسترد کیے جانے کے امکانات ہمیشہ موجود رہتے ہیں تو پھر موجودہ نظام میں ایک اجنبی سے ملنے پر اتنا اعتراض کیوں؟

اس پر عطیہ عباس کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اختیار کا ہے۔ وہاں لڑکے لڑکیاں اپنی پسند اور مرضی سے ملاقات کرتے ہیں ٹنڈر اور بمبل جیسی میچ میکنگ ایپس پر ایک دوسرے کے بارے میں تھوڑا پڑھ اور جان کر ہی ملاقات کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں مگر یہاں لڑکی کے گھر کون آرہا ہے یہ اس کے اختیار میں نہیں، اس کا تیار ہو کر مہمانوں کے سامنے پیش ہونا یہ بھی اس کے اختیار میں نہیں پھر ایک شخص سے ملنا اور کئی افراد کے سامنے کھانے پینے کے لوازمات لے کر جانا جو اس کو سطحی طور پر دیکھ اور جانچ رہے ہوں اس کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔

یہ طے ہے کہ فی الحال پاکستانی معاشرے میں جیون ساتھی تلاش کرنے کے مغربی طریقہ کار کو عام قبولیت حاصل نہیں۔ گو کہ ملک کے 'رشتہ کلچر' میں وقت کے ساتھ ساتھ کچھ تبدیلی تو آئی ہے مگر اس پر روایتی رنگ اب بھی گہرا ہے۔

والدین کے لیے اپنی اولاد کی شادی یقیناً خوشی کا باعث ہوتی ہے لیکن نوجوان نسل چاہتی ہے کہ اس رشتے پر والدین اپنی مرضی اور خواہشات نافذ کرنے کے بجائے جن دو افراد کو زندگی ساتھ گزارنی ہے انہی کو اس کا فیصلہ کرنے کا مجاز قرار دیں۔

شادی سے تو گھر میں خوشیاں آنی چاہئیں نہ کہ اقتدار اور اختیار کی جنگ۔ پسند کی یا ذہنی ہم آہنگی والی شادیوں سے عدم تحفظ کا شکار ہونے کے بجائے اس بات کو سمجھا جائے کہ جو جوڑا مضبوط اور خوش ہوگا وہ ایک دوسرے کے خاندان کا احترام زبردستی کرنے کے بجائے دل سے کرے گا۔

XS
SM
MD
LG