آج دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ آٹھ مارچ کو خواتین کی قیادت، ان کے عزم اور حوصلے کو سراہا جاتا ہے اور دنیا بھر میں ہر رنگ و نسل، ثقافت اور سماجی پسِ منظر سے تعلق رکھنے والی خواتین جمع ہوکر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہیں۔
وائس آف امریکہ کا پروگرام 'ع مطابق ' اس ہفتے خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے ہی پیش کیا گیا، جسے آپ نیچے دیے گئے لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔
اس پروگرام میں لوئر دیر سے تعلق رکھنے والی نورینہ شمس، ٹرانسجینڈرز کے حقوق کی سرگرم کارکن ڈاکٹر معز مہرب اعوان اور معروف اینکر اور مصنفہ ڈاکٹر بشریٰ اقبال نے اپنی جدوجہد کی کہانیاں بیان کی ہیں۔
پاکستان میں جب تک خواتین کا عالمی دن اخبارات کے فیچرز اور مقامی ہوٹلز میں این جی اوز کے تحت ہونے والے سیمینارز تک محدود رہا اس پر زیادہ بحث نہیں ہوئی۔ مگر پھر گلوبلائزیشن کے اس دور میں دنیا میں فیمنزم کی چوتھی لہر کی بازگشت پاکستان میں بھی سنائی دی اور پاکستان میں عورتوں کے حقوق کے لیے بات کرنے والی کارکنوں کو بھی اس سے تقویت ملی۔
سن 2018 سے پاکستان میں وومن ڈیموکریٹک فورم اور خواتین کی دیگر تنظیموں کی جانب سےعورت مارچ کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔تب سے حقوق نسواں کی یہ تحریک اور اس پر تنقید ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔
اپنی "سسٹر ہڈ" کا جشن مناتی، معاشرتی رویوں پر تنقید کرتی اور پدر شاہی نظام کو للکارتی ان خواتین پر کبھی بے حیائی کا الزام لگایا گیاتو کبھی اسلامی اقدار کی خلاف ورزی اور توہین مذہب کا۔ ملک کے دارالحکومت میں ان پر پتھر اور جوتے پھینکنے جیسے واقعات بھی پیش آ چکے ہیں۔
ایک جانب 'عورت مارچ' کے مقابل 'حیا مارچ' آگیا ہے تو دوسری جانب وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری نےوزیر اعظم کو خط لکھا کہ عورت مارچ پر پابندی عائد کی جائے اور اس کی جگہ 'حجاب ڈے' منایا جائے۔
وزیر مذہبی امور کی جانب سے وزیراعظم کو خط لکھے ایک ہی روز گزرا تھا کہ جمعیتِ علمائے اسلام (ف) کے اسلام آباد چیپٹر کی جانب سے دھمکی دی گئی کہ اگر حکومت مارچ روکنے میں ناکام رہی تو وہ اسے لاٹھی چارج کر کے خود روکیں گے۔
عورت مارچ اور پاکستان میں خواتین کی مشکلات
پاکستان میں خواتین کے حقوق کی ضمانت کے قوانین تو موجود ہیں مگر صرف قوانین معاشرتی سوچ کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ اب بھی بہت سی خواتین اپنے ہی گھروں میں محفوظ نہیں تو وہ اپنی آواز کہاں اور کیسے اٹھائیں؟
جہاں بعض حلقے عورتوں کے یوں باہر نکل کر مارچ کرنے کو بے حیائی قرار دیتے ہیں وہیں آپ کو بہت سے لوگ یہ کہتے ہوئے بھی ملیں گے کہ وہ "فیمینسٹ" نہیں "ہیومنسٹ" ہیں۔یعنی وہ انسانی حقوق پرتو یقین رکھتے ہیں مگر صرف خواتین کے حقوق پر نہیں یا پھر ان کا مطلب شاید کچھ یہ ہے کہ خواتین کے حقوق انسانی حقوق میں شامل ہیں اس لیے علیحدہ سے فیمینزم کے نظریے کی ضرورت نہیں۔
خواتین کےحقوق کی کارکنان اس رویے کو فیمینزم تحریک اور اس کے نظریے سے لا علمی ہی قرار دیتی ہیں۔ پاکستان میں فیمینزم کی مخالفت اس وجہ سے بھی کی جاتی ہے کہ اسے مغرب کی ایجاد اور مذہب سے متصادم سمجھا جاتا ہے۔
اکثر یہ جواز سننے میں آتا ہے کہ اسلام میں خواتین کے حقوق پہلے سے موجود ہیں تو کسی نئی تحریک کی ضرورت نہیں۔ اس پر خواتین کےحقوق کی کارکنان اکثر یہ جواب دیتی ہیں کہ مذہب تو عورت کو بااختیار دیکھتا ہے مگر سماج نہیں دیکھنا چاہتا۔
ان کارکنوں کے نزدیک یہ تحریک مذہب کے خلاف نہیں مگر متعصب سماجی رویوں اور پدر شاہی نظام کے خلاف ہے۔ یہ خواتین سوال کرتی ہیں کہ کیا ملک سے ریپ، گھریلو تشدد، جنس کی بنیاد پر ہراسانی اور تشدد پر قوانین موجود ہونے سے کیا یہ مسائل ختم ہو گئے ہیں؟ کیا آج عورت غیرت کے نام پر پاکستان میں قتل نہیں ہو رہی یا راہ چلتے ہراسانی کا نشانہ نہیں بن رہی؟ یہ کارکنان اخبارات میں شائع ہونے والی ان خبروں کی طرف توجہ دلاتی ہیں جن میں عورت پر تشدد یا اسے جان سے مارنے کی وجوہات میں اپنی پسند کی شادی اور رشتے کے انکار سے لے کر کھانے میں نمک کم ہونا یا کھانا گرم نہ ہونا جیسی وجوہات شامل ہو تی ہیں۔
ابھی ایک ماہ قبل ہی پشاور میں ایک حاملہ عورت نے بیٹے کی خواہش میں عامل کے مشورے پر اپنے سر میں کیل ٹھونک دی تھی۔ اسپتال کے عملے کے مطابق عورت نے بتایا کہ اس کی پہلے سے تین بیٹیاں ہیں اور اس کے شوہر نے دھمکی دی تھی کہ اگر اس بار بھی بیٹا نہ ہوا تو وہ اسے چھوڑ دے گا۔ تاہم خاتون کے شوہر نے کہا کہ اس کی بیوی ذہنی مریضہ ہے۔
تولیدی صحت کی ماہر ڈاکٹر یاسمین قاضی کے مطابق پاکستان جیسے اسلامی ملک میں جہاں اسقاط حمل پر پابندی ہے، ایسی بھی خواتین ہیں جو الٹراساؤنڈ میں یہ معلوم ہونے پر کہ ان کے رحم میں پلنے والا بچہ ایک لڑکی ہے، غیر محفوظ اسقاط حمل کرواتی ہیں کیوں کہ بیٹی پیدا کرنا ان کی شادی شدہ زندگی کے لیے برا پیغام ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں خواتین کے حوالے سے اعدادوشمار کیا بتاتے ہیں؟
پاکستان میں خواتین کے حقوق کی صورتِ حال کا اندازہ صرف اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ورلڈ اکنامک فورم کی عالمی صنفی عدم مساوات کی سال 2021 کی رینکنگ میں 156 ممالک میں پاکستان کا نمبر 153 ہے۔
پاکستان ہیلتھ اینڈ ڈیموگرافک سروے کے مطابق پندرہ سے 39 سال تک کی شادی شدہ خواتین میں 28 فی صد خواتین کے مطابق وہ اپنی شادی شدہ زندگی کے دوران کبھی نہ کبھی تشدد کا شکار ہو چکی ہیں جب کہ مردوں کے رویے اور صنفی برابری پر ہونے والے بین الاقوامی سروے میں 59 فی صد پاکستانی خواتین کا کہنا تھا کہ وہ اپنی شادی شدہ زندگی میں تشدد کا شکار ہو چکی ہیں۔
پاکستان ڈیموگرافک سروے کے مطابق خود 40 فی صد خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ کھانا جلا دینے، شوہر سے بحث کرنے، اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جانے، بچوں کو نظر انداز کرنے، جسمانی تعلق سے انکار، سسرال کو نظر انداز کرنے جیسی وجوہات پر شوہر کا بیوی پر تشدد جائز ہے۔
مردوں کے رویے اور صنفی برابری کا سروے حکومت پاکستان، رٹگرز پاکستان، پاپولیشن کاؤنسل اور روزن تنظیم کے مشترکہ تعاون سے کیا گیا۔ اس تحقیق میں یہ سامنے آیا کہ 56 فی صد غیر شادی شدہ مرد اور 59 فی صد شادی شدہ مرد سمجھتے ہیں کہ بعض صورتوں میں خواتین پر تشدد جائز ہے۔
اسی سروے کے مطابق 58 فی صد مردوں کاکہنا ہے کہ خواتین کے حقوق پر کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں جب کہ اس کے برعکس 60 فی صد خواتین اس کی ضرورت محسوس کرتی ہیں۔
پاکستان ڈیموگرافک سروے کے مطابق ملک کی محض تین فی صد خواتین گھر کی اور دو فی صد کسی قسم کی جائیداد کی تنہا یا مشترکہ ملکیت رکھتی ہے۔
دنیا بھر میں غیرت کے نام پر ہونے والے تشدد پراعدادوشمار فراہم کرنے والے ادارے 'آنر بیزڈ وائلینس اویئرنیس نیٹ ورک' کے مطابق پاکستان میں ہر سال 1000 سےزیادہ خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں۔
تعلیم کی بات کریں تو حکومتِ پاکستان کے مطابق ملک میں خواتین کی شرح تعلیم مردوں سے 22 فی صد کم ہے اور بلوغت کی عمر تک پہنچنے پر یہ شرح مزید گر جاتی ہے۔
خواتین کی معاشی خود مختاری کے بارے میں بین الاقوامی ادارہ برائے مزدور کہتا ہے کہ پاکستان میں خواتین کی تعداد 49 فی صد ہے لیکن لیبر فورس میں ان کی شمولیت 22 فی صد ہی ہے جب کہ ان میں بھی اٹھارہ فی صد ہی ایسی ہیں جنہیں اجرت رقم کی صورت میں ملتی ہے۔
خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ دارپولیس فورس میں بھی خواتین کی نمائندگی محض دو فی صد ہے۔
کیا پاکستان میں عور ت مارچ کی بحث میں اصل مسائل نظر انداز ہو جاتے ہیں؟
ایک عام رائے یہ ہے کہ عورت مارچ پر بحث ویمنز ڈے پر سے لوگوں کی توجہ ہٹا دیتی ہے۔ وی او اے اردو کے پروگرام ’ع مطابق‘ میں بات کرتے ہوئے اسلامک اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کرنےوالی میڈیا شخصیت ڈاکٹر بشریٰ اقبال کا یہی کہنا تھا کہ عورت کے حقوق کی بات ضرور ہونی چاہیے مگر اس کا طریقہ کار غلط ہو تو صرف شور ہی ہوتا ہے مسائل کا حل نہیں نکلتا۔ ان کا کہنا تھا کہ عورت مارچ سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے یہ عورت اور مرد کے درمیان جنگ ہے اور یہ درست محسوس نہیں ہوتا۔
پاکستان میں قومی سطح کی اسکواش کھلاڑی نورینہ شمس جن کا تعلق لوئر دیر سے ہے ، کہتی ہیں کہ عورت مارچ نے بہت سی خواتین کو آواز دی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بڑے ہوتے ہوئے وہ خود یہ سوچتی تھیں کہ کیوں وہ سب کچھ جو ان کا بھائی کرتا ہے وہ خود نہیں کر سکتیں۔ یاد رہے نورینہ کرکٹ کھلاڑی بننے کے لیے کافی عرصہ مقامی یوتھ ٹیم میں لڑکا بن کر کھیلتی رہیں۔
نورینہ کہتی ہیں کہ اب سے دس سال پہلے تک ماحول ایسا تھا کہ سوال اٹھانا بھی معیوب بات لگتی تھی مگر اب عورت مارچ کے بعد ان کی اپنی والدہ کے ساتھ شادی سے متعلق گفتگو ہوئی جو کہ شاید اب سے کچھ سال پہلے نہ ہو پاتی۔
نورینہ کہتی ہیں کہ بحث ہورہی ہے تو اچھا ہے۔ چند خواتین کے سڑک پر آنے سے اتنا شور ہے، کیا ہی اچھا ہو اگر ہم انسداد تمباکو نوشی کے دن، کینسر ڈے اور ہیپاٹائٹس ڈے پر بھی یوں ہی بحث کریں کہ یہ بیماریاں معاشرے میں آخر پھیل ہی کیوں رہی ہیں؟
ٹرانسجینڈرز کےحقوق کی کارکن ڈاکٹر معز مہرب اعوان جنہوں نے سوشل میڈیا پر ’شمائلہ بھٹی‘ کے کردار سے شہرت پائی، کہتی ہیں کہ معاشرے میں بحث چھڑ جانا اچھی بات ہے کیوں کہ اسی طرح حقوق کی نئی سرحدیں متعین ہوتی ہیں، انسان کو اپنے نظریے سے ہٹ کر کچھ دیکھنے، کچھ سمجھنے کو ملتا ہے اور پھر بات سمجھوتے کی طرف بڑھتی ہے۔
تاہم ڈاکٹر معز کا کہنا تھا کہ ماضی میں اس مارچ پر چڑھائی اور پر تشدد حملوں کی کوششیں شرم ناک تھیں۔ ان کے مطابق مارچ کرنے والی خواتین سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں، یہ آپ کا حق ہے، مگر اسی طرح مارچ کرنا ان خواتین اور ٹرانسجینڈرز کا بھی آئینی حق ہے جس پر اختلاف کی آڑ میں حملے،تشدد، دھمکیاں اور نفرت انگیز الزامات صرف عورت کے خلاف نفرت ہی ظاہر کرتے ہیں اور کچھ نہیں ۔
ڈاکٹر معز کی نظر میں اختلاف رائے رکھنے والے تمام گروہوں کو ایسے عناصر کو خود سے علیحدہ کر نا چاہیے۔