باغوں کے شہر لاہور کی فضا آج کل اسموگ سے متاثر ہے۔ اس اسموگ سے گزشتہ چند ماہ میں ہزاروں افراد بیمار ہوئے ہیں۔ فضائی سفر متاثر ہوا ہے کیوں کہ کئی پروازیں کینسل ہوئی ہیں۔
پنجاب کی حکومت نے اسموگ سے نبرد آزما ہونے کے لیے مصنوعی بارش کا سہارا بھی لیا۔ لیکن کوئی تدبیر کام نہیں آئی۔
مقامی موسم میں صنعتوں، ٹرانسپورٹ اور دوسری انسانی سرگرمیوں کی بدولت پیدا ہونے والے آلودگی کے ذرات کو ایک ہی جغرافیائی مقام پر مبحوس رکھتا ہے اور یہ ذرات فضا کے ساتھ ارد گرد کے علاقوں میں نہیں بکھرتے۔
ایسے جغرافیائی حالات کو ’ایئرشیڈ‘ کہا جاتا ہے۔
لاہور کے ایئرشیڈ جیسے سرحد پار بھارت میں بھی محسوس کیے جاتے ہیں جہاں دارالحکومت نئی دہلی میں خاص فضائی حالات کے سبب بعض اوقات 30 فی صد آلودگی جمع ہو جاتی ہے۔
جنوبی ایشیا میں چھ ایسے مقامات کو ایئرشیڈ کہا جا سکتا ہے جب کہ اس خطے کے بعض شہر فضائی میں دنیا بھر کے مقابلے میں آلودگی میں سر فہرست ہیں۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ اسموگ جیسے مسئلے سے نمٹنے کے لیے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کو مل کر کام کرنا پڑے گا اور اس کے لیے فضائی آلودگی کے خلاف ہر شہر کے حساب سے حکمتِ عملی کی ضرورت ہوگی۔ لیکن خطے کی سیاسی صورتِ حال کے سبب یہ خیال بہت بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے سفارتی تعلقات اس وقت کشیدہ ہیں۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس اور ماضی میں متعدد جنگیں لڑنے والے ممالک کے درمیان سرحدوں کی بندش سے آمد و رفت کی پابندیاں بھی عائد ہیں جب کہ ایک دونوں ممالک میں کوئی بھی کام، سیاحت اور حصول علم کے لیے بھی شہریوں کی آمدو رفت انتہائی محدود ہے۔ ایسے میں صرف مذہبی سیاحت کی کسی حد تک اجازت دی جاتی ہے۔
پاکستان کے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے عابد سلہری نے ’اے پی‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سائنس اور تیکنیکی معاملات سے واقف برادری سمجھتی ہے کہ فضائی آلودگی کو ویزے کی ضرورت نہیں ہے۔
ان کے مطابق سرحد کے دونوں طرف مسائل پیدا کرنے والی وجوہات ایک ہی ہیں اور اس بات کی کوئی توجیح نہیں کہ سرحد کے اس پار اگر کوئی علاقہ فضائی آلودگی کے خلاف کوئی پالیسی مرتب کرتا ہے تو دوسری جانب ایسا نہ کیا جائے۔
سلہری کا کہنا تھا کہ خطے اور عالمی سطح پر ایسی گفتگو کا موقع تو ملتا ہے، چاہے سرکاری سطح پر ایسا ممکن نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ان ممالک کو سال بھر فضائی آلودگی سے متعلق مذاکرات کے راؤنڈ منعقد کرنے چاہئے نہ کہ جب سردی کا موسم آئے تو اس پر سوچ بچار شروع کی جائے۔
انہوں نے بتایا کہ ایئرشیڈ سے متعلق انتظام کے لیے خطے کی سطح پر پلان مرتب کرنا چاہیے۔ لیکن 2024 بھارت اور پاکستان میں الیکشن کا سال ہے اور سرکاری سطح پر تعاون ابھی اُس سطح تک نہیں پہنچا۔
پاکستان میں چند ہفتوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ پیپلز بلاول بھٹو زرداری ہی ایک ایسے سیاست دان ہیں جنہوں نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے سرمایہ کاری کا وعدہ کر رکھا ہے۔
نئی دہلی کے سسٹین ایبل فیوچرز کولابوریٹو تھنک ٹینک سے تعلق رکھنے والے بھارگاو کرشنا کا کہنا ہے کہ بھارت میں فضائی آلودگی ابھی تک ایسا اہم معاملہ نہیں بن سکا جس پر لوگ ووٹ دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات کے تجربات لوگوں کے ووٹ کو متاثر کر سکتے ہیں۔
کرشنا کے بقول علاقائی انتخابات میں کبھی کبھی آلودگی سے متعلق وعدے سامنے آ جاتے ہیں۔ نئی دہلی کے 2020 کے انتخابات کے دوران ہر پارٹی کے منشور میں یہ بات درج تھی۔
ورلڈ بینک کے مطابق ایئرشیڈ کے انتظام کی پالیسی کے لیے ضروری ہے کہ مختلف ممالک فضائی معیار کے اہداف پر اتفاق کریں اور اس سلسلے میں متفقہ پالیسیوں پر عمل درآمد کریں جب کہ اپنے تجربات بتانے کے لیے مذاکرات جاری رکھیں۔
ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 93 فی صد پاکستانی اور 96 فی صد بھارتی شہری آلودہ فضا میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
’اے پی‘ کے مطابق بعض اندازوں کے مطابق پاکستان کے صوبے پنجاب میں ہر سال دو لاکھ 20 ہزار کے قریب اموات کا تعلق فضائی آلودگی سے جڑی بیماریوں کے سبب ہوتا ہے۔
موسم سرما کے دوران پنجاب کے گھروں، مسجدوں، اسکولوں، سڑکوں اور کھیتوں کے اوپر دھوئیں کے باریک بادل ہر وقت نظر آتے ہیں۔
لاہور کی سڑکوں پر 67 لاکھ سے زائد گاڑیاں، بسیں، موٹر سائیکلیں اور آمد و رفت کے دیگر ذرائع رواں دواں ہیں۔ تعمیری سرگرمیوں سے آلودگی اور فضلہ مسلسل خارج ہوتا رہتا ہے۔
شام کے اوقات میں حدِ نگاہ محدود ہو جاتی ہے۔ مغل زمانے کی تعمیر شدہ بادشاہی مسجد پر بھی اسموگ کے سائے ہوتے ہیں۔
پاکستان میں آن لائن شاپنگ کی ویب سائٹ ’دراز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس اکتوبر سے خصوصاً پنجاب میں ایئر پیوری فایئر کی سرچ بڑھ گئی ہے۔
پھیپھڑوں کی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر خاور عباس چوہدری لاہور کی فضا کے ابتر ہوتے حالات پر نالاں ہیں۔
’اے پی‘ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک زمانے میں لاہور ایک خوب صورت شہر تھا جس اسپتال میں وہ کام کرتے ہیں، وہاں اس برس موسم سرما میں سانس کی بیماریوں سے علیل مریضوں کی تعداد میں 100 گنا اضافہ ہوا ہے۔ وہ بڑھتی فضائی آلودگی کو اس کا موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔
بنگلورو میں قائم سینٹر فار اسٹڈی آف سائنس، ٹیکنالوجی اینڈ پالیسی میں سینئر ریسرچ فیلو بریتما سنگھ نے بھارت میں فضائی آلودگی پر ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک تحقیق کی ہے۔
بریتما سنگھ کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک آلودگی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے یورپی یونین کے تعاون کی پیروی کر سکتے ہیں اور اس سلسلے میں اعداد و شمار شئیر کرنے اور بہتر پالیسیاں بنانے پر تعاون کیا جا سکتا ہے۔
سال 2019 میں بھارت میں نیشنل کلین ایئر پروگرام کی شروعات کے بعد حکام کو یہ احساس ہوا کہ شہروں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ ان کے ارد گرد کے علاقوں میں کیا ہورہا ہے۔ لیکن ارد گرد کے علاقوں کی تعریف وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔
پراتما سنگھ کے بقول ہر ایک کو احساس ہوتا گیا کہ ایئرشیڈ کے انتظام سے متعلق پالیسیاں مرتب کرنا اس مسئلے کے حل کے لیے کتنی اہم ہیں۔
پنجاب کے انوائرنمنٹ پراٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر سید نصیر الرحمٰن شاہ مقامی سطح پر فضائی آلودگی سے لڑنے سے متعلق کامیابیوں کا ذکر کرتے ہیں۔
ان کے مطابق انڈسٹری اور اینٹوں کی بھٹیوں سے خارج ہونے والی گیسوں میں کمی ہوئی ہے۔ فصلوں کو جلانے کے عمل کو محدود کرنے کے لیے جلد ہی کسانوں کو سبسڈی کے ساتھ مشینری بھی میسر ہوگی اور شہر میں رکشوں، موٹرسائیکلوں، رکشوں اور بسوں سے اٹھنے والے دھوئیں سے متعلق بھی انتظامی پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں۔
نصیر الرحمٰن شاہ کے مطابق اگرچہ حالات بہتر ہو رہے ہیں لیکن اس میں وقت لگے گا۔
وہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق مذاکرات کے لیے بھارت جا چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں علاقائی فورم ’سارک‘ فضائی آلودگی سے متعلق گفتگو کے لیے ان ممالک کو بہتر جگہ فراہم کرتا ہے۔
لیکن وہ وزارتی سطح پر بھارت کے ساتھ اس سلسلے میں تعاون کی کمی کو مانتے ہیں۔
اے پی کے مطابق سید نصیر الرحمٰن شاہ کے سامنے لگی ایک اسکرین پر اسموگ سیل نامی کمرے سے حاصل ہونے والے نتائج میں پاکستان ایئر کوالٹی انڈیکس یا فضائی معیار انٹرویو والے دن چین سے بہتر نظر آ رہا تھا۔
نصیر الرحمٰن شاہ کے مطابق پنجاب کی فضا میں آلودگی عالمی ادارۂ صحت کے تجویز کردہ پی ایم 2.5 سے ہی زیادہ تھی۔
انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ آلودگی کے ٹھوس ذرات جب سانس کے ذریعے جسم میں جائیں تو اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن فضائی معیار کے باقی معیارات کنٹرول میں ہیں۔
اس رپورٹ کے لیے مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔