پاکستان اور بھارت کے اکثر علاقوں میں موسم سرما کے آغاز پر شہروں کے شہر سموگ کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں جس سے روزمرہ زندگی کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔دھوئیں اور گرد سے بننے والا سموگ صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے مگر اس سے بھی کہیں زیادہ خطرناک مائیکرو سکوپک آلودگی ہے۔
معدنی ایندھن جلانے سے پیدا ہونے والی کاربن گیسیں، ماہرین کے مطابق، گلوبل وارمنگ کا سبب بنتی ہیں تو دوسری طرف اس سے فضائی آلودگی بھی پیدا ہوتی ہے جو صرف انسانی صحت کو ہی متاثر نہیں کرتی بلکہ اوسط عمر کے دورانیے میں بھی کمی کرتی ہے۔
ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ معدنی ایندھن کے استعمال سے پیدا ہونے والی آلودگی سے دنیا بھر میں انسانی زندگی کی اوسط عمر میں دو سال کی کمی ہو گئی ہے۔
فضا میں موجودگی اس آلودگی کو سائنس کی زبان میں ہوا کی مائیکروسکوپک آلودگی کہا جاتا ہے۔ مائیکروسکوپ سے مراد ایسے باریک اور چھوٹے چھوٹے ذرات ہیں جنہیں خودربین کی مدد سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔
سائنس دان ان کی پیمائش کے لیے جو پیمانہ استعمال کرتے ہیں اسے پی ایم۔2اعشاریہ 5 آلودگی کہا جاتا ہے۔ ان ذرات کی باریکی کا اندازہ آپ اس چیز سے لگا لیں کہ ان کا حجم انسانی بال کے قطر کے مساوی یا اس سے چھوٹا ہوتا ہے۔
فضائی آلودگی میں ایشائی ممالک سرفہرست ہیں۔ شکاگو یونیورسٹی کے انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر جنوبی ایشیائی ممالک میں فضائی آلودگی کو سطح کو عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق کر دیا جائے تو وہاں اوسط متوقع عمر میں پانچ سال کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
رپورٹ میں گنجان آباد بھارتی ریاستوں اتر پردیش اور بہار کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان ریاستوں میں گھروں کی تعداد 30 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔اور وہاں کی فضا میں مائیکرسکوپ آلودگی کی سطح اتنی بڑھ چکی ہے کہ لوگ کثرت سے پھیپھڑوں اور دل کے امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں جس سے وہاں متوقع اوسط عمر میں تقریباً آٹھ سال کی کمی ہو چکی ہے۔
بات صرف اترپردیش اور بہار تک ہی محدود نہیں ہے، دارلحکومت دہلی فضائی آلودگی میں ان سے بھی کہیں آگے ہے اور وہاں متوقع اوسط عمر لگ بھگ دس سال گھٹ چکی ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ آلودگی کے انتہائی باریک ذرات جو عموماً دکھائی بھی نہیں دیتے، سانس کے ساتھ ہمارے پھیپھٹروں میں داخل ہو جاتے ہیں۔جہاں سے وہ خون میں شامل ہو کر ہمارے اعضائے ریئسہ اور جسمانی نظام کو منفی طور پر متاثر کرتے ہیں۔
سن 2013 میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مائیکروسکوپک آلودگی کینسر کا کا سبب بنتی ہے۔
ہماری فضا میں مائیکروسکوپ ذرات ہر وقت موجود رہتے ہیں، لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہےکہ آلودگی کی سطح کم ہو تو وہ نقصان نہیں پہنچاتی۔ سوال یہ ہے کہ آلودگی کی محفوظ مقدار کی سطح کیا ہے۔ اس کے جواب میں عالمی ا دارہ صحت کا کہنا ہے کہ ایک مکعب میٹر ہوا میں 24 گھنٹوں کے دوران اگر مائیکروسکوپک ذرات کی مقدار 15 مائیکرو گرام اور سالانہ بنیاد پر اوسطاً پانچ مائیکرو گرام تک یا اس سے کم ہو تو وہ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ نہیں ہو ں گے۔
مائیکرو سکوپک آلودگی کے مضر صحت اثرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے عالمی ادارہ صحت نے گزشتہ سال اپنے ان معیارات کو سخت کیا جو 2005 میں مقرر کیے گئے تھے۔
اس سائنسی تحقیق کی قیادت کرسٹا ہاسنکوف نے کی ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنی ہوا کو صاف کر لیں تو دنیا بھر میں لوگوں کی زندگیوں میں کئی سال کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
جنوبی ایشیا کے ساتھ ساتھ وسطی اور مغربی افریقہ اور وسطی امریکہ کے کچھ حصوں کو آلودگی کی بلند سطح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہےاور ان علاقوں میں متوقع اوسط عمر عالمی اوسط سے کافی کم ہے۔
رپورٹ میں اس پر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ سن 2020 میں اس کے باوجود مائیکروسکوپک فضائی آلودگی میں کوئی کمی نہیں آئی کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے اکثر علاقوں میں لاک ڈاؤن تھااور آمد و رفت سست پڑ گئی تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس کے باوجود دنیا میں ایک ملک ایسا بھی ہے جس نے فضائی آ لودگی پر قابو پانے میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ اس ملک کا نام چین ہے۔
تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین میں جس کی آبادی ایک ارب 40 کروڑ نفونس پر مشتمل ہے، وہاں ٹھوس اقدامات کے نتیجے میں 2013 کے مقابلے میں 2020 میں فضائی آلودگی کی سطح میں 40 فی صد تک کمی ریکارڈ کی گئی جس سے وہاں متوقع اوسط عمر میں دو سال کا اضافہ ہوا۔
لیکن اس مثبت تصویر کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ اس کامیابی کے باوجود چین کی متوقع اوسط عمر میں دو اعشاریہ چھ سال کی کمی ہوئی۔ جس کی وجہ آلودگی سے بہت زیادہ متاثرہ صوبے ہینان، بیبی اور شانڈونگ ہیںِ۔ جس نے دیگر علاقوں میں ہونے والے مثبت اضافوں کو زائل کر دیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قبل از وقت اموات کی دیگر وجوہات کے مقابلے میں فضائی آلودگی کا حصہ کہیں زیادہ ہے۔ اس کی شرح تمباکو اور شراب نوشی کے مقابلے میں تین گنا اور ایچ آئی وی ایڈ سے چھ گنا زیادہ ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں)