شام کے سب سے بڑے شہر حلب کے مشرقی حصے میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں 72 گھنٹوں کی عارضی جنگ بندی کے ختم ہونے کے ایک دن کے بعد لڑائی دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔
شام کی حکومت اور اس کے بڑے اتحادی روس نے انسانی بنیادوں پر اس عارضی جنگ بندی کے وقفے کا اعلان کیا تھا۔
شام کی صورتحال پر نظر رکھنے والی تنظیم 'سریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' نے کہا کہ تین دنوں کے وقفے کے بعد شامی یا روسی جنگی طیاروں کی طرف سے فضائی کارروائیاں ہفتے کو دوبارہ شروع ہو گئی ہیں۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ شہر کے جنگ کے علاقے میں زمینی لڑائی بھی جاری ہے اور بھاری ہھتیاروں سے گولہ باری کی گئی ہے۔
حلب شہر دو حصوں میں تقسیم ہے اس کے ایک حصے پر حزب مخالف کی فورسز جبکہ دوسرے پر حکومت کا کنٹرول ہے۔
باغی فورسز کے کچھ گروپوں کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ وہ ان گروپوں کے ساتھ مل کر برسرپیکار ہیں جنہیں امریکہ دہشت قرار دے چکا ہے۔
تاہم باغیوں کے زیر کنٹرول حلب کے مشرقی علاقے پر روس اور شام کی سرکاری فورسز کی طرف سے کی جانے والے فضائی کارروائیوں پر بین الاقوامی سطح پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔
امریکہ اور یورپی یونین کے راہنماؤں نے بھی ان کارروائیوں کی مذمت کی ہے جبکہ کچھ یورپی یونین کے رکن ملکوں کی طرف سے شامی حکومت اور ان کے اتحادی روس اور ایران کے خلاف تازہ پابندیوں کے مطالبات بھی سامنے آئے ہیں۔
روس نے 20 اکتوبر کو انسانی بنیادوں پر لڑائی میں وقفے کا اعلان کیا اور شام کی فوج نے لوگوں کے انخلا کے لیے آٹھ راستوں کو کھولا تاہم بہت تھوڑی تعداد میں لوگ ایک ہی راستے سے گزرے۔
اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق باغیوں کے زیر کنٹرول حلب شہر کے محصور علاقے میں اب بھی ڈھائی لاکھ لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ عارضی جنگ بندی کے وقفے کے دوران وہ شدید زخمی افراد کو باہر نکالنے اور ممکنہ طور امداد کی ترسیل کر سکے گی۔
تاہم بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے امدادی کارکنوں کی حفاظت کی ضمانت نا ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکی ہے۔