بچپن کی پڑھی کہانیوں میں مسافر ہمیشہ کسی نئی بستی میں رات بسر کرنے کے لئے سرائے کی تلاش میں رہتا تھا۔۔۔۔
آج دنیا بدل گئی ہے۔۔۔مگر دنیا تو ہمیشہ سے بدل رہی ہے ۔۔۔ لوگ سنہ 40 کی دہائی میں بھی یہی کہتے تھے ۔۔یقین نہ آئے تو گرو دت، وحیدہ رحمان یا نرگس سنیل دت کی کوئی فلم دیکھ لیں۔۔۔ مجال ہے، کوئی ایسی فلم ہو جس میں ہیروئن اپنے والد سے نہ کہتی ہو کہ ’ابا/بابا/پتا جی! زمانہ بدل گیا ہے۔ اب میں اپنی مرضی سے شادی کروں گی۔۔۔‘ افسوس۔۔۔۔ہیروئن کی شادی اس کی مرضی سے ہو جاتی تو فلم کیسے بنتی؟
لیکن، سوچ کی تبدیلی اور قدروں کے بدلاؤ کا اثر آج ہماری آپ کی روز مرہ زندگی کے ہر پہلو، ہر لین دین اور ہر رشتے میں دیکھا جا سکتا ہے۔۔اور کسی کو اچھا لگے یا نہیں ۔۔زندگی کو متاثر کرنے والا ہر عنصر معاشیات سے جڑا ہے۔گھر کا بجٹ، بچے کی فیس، مکان کا کرایہ، کسی پر فضا تفریحی مقام پر چھٹیاں گزارنے کا خواب۔۔۔۔۔ آمدنی کی جمع تفریق سے خاندان کی خوشحالی اور کرنسی کی قدر سے ملکوں کی معیشت کا حال جاننے والے، پچھلے کچھ عرصے سے اقتصادیات کے مضمون کو ’شئیرنگ اکانومی‘ یعنی معیشت میں حصہ داری کا سادہ لباس پہنا کر، عام آدمی کو اپنی آمدنی میں اضافے کے طریقے سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اوبر، لفٹ اور ائیر بی این بی۔۔۔۔۔جیسے کئی نئے کاروبار، انٹرنیٹ اور سمارٹ فون ٹیکنالوجی کی وجہ سے پھل پھول رہے ہیں۔ اور اگرچہ ابھی آمدنی میں اضافے کے یہ تصورات نئے اور ان کے کئی پہلو جواب طلب ہیں، کئی صارفین اس دلچسپ تجربے میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کرسچئین نیناز نیویارک سے اپنی ہونے والی ساس اور منگیتر کے ساتھ واشنگٹن ڈی سی گھومنے آئے ہیں۔ اور، اپنے چند روزہ قیام کے لئے انہوں نے واشنگٹن کے کسی ہوٹل یا دوست کے گھر ٹہرنے کے بجائے اپنے لئے ایک ایسا گھر منتخب کیا ہے، جس میں رہنے والوں سےان کی کوئی رشتہ داری نہیں۔
پھر بھی وہ مہمان ہیں۔ اور، مکان مالک ان کے میزبان۔۔۔
ہم نے کرسچئین سے پوچھا کہ وہ ایک اجنبی گھر میں مہمان بننے پر کیوں رضامند ہوئے؟۔۔ کرسچئین کا جواب جاننے کے لئے دیکھئے ہماری یہ وڈیو رپورٹ: