واشنگٹن —
امریکہ میں گذشتہ چھ ماہ کے دوران کانوں میں اذان کی آواز نہیں سنائی دی جس طرح پاکستان میں آپ جہاں بھی ہوں نماز کے وقت مساجد کے لاوٴڈ سپیکر سے اذان کی آواز سماعت سے ٹکراتی ہے۔ لیکن، اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ لوگ نماز نہیں پڑھتے۔
مساجد کی کمی نہیں اور کالج اور اس سے اوپر کی سطح کے تعلیمی اداروں میں نماز کے لیے کمرہ مختص ہوتا ہے۔ مختلف رہائشی کالونیوں کے ساتھ ایک چھوٹی سی مسجد کا بھی اہتمام ضرور ہوتا ہے۔ لیکن، یہ بھی حقیقت ہے کہ نمازیوں کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے۔
امریکہ میں مساجد کی تعداد وولڈ ٹریڈ سنٹر پر حملوں کے بعد حیران کن طور پر بڑھی ہے۔
امریکی صحافی جیروم کی ’وائس آف امریکہ‘ ویب پر شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ پر دہشت گرد حملوں کے بعد ملک میں مساجد کی تعداد میں 74 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جیروم نے2011 ءمیں ’کونسل آن امریکن مسلم ریلیشنز‘ کے تعاون سے منعقدہ ایک سٹڈی کے سلسلے میں یہ بات تحریر کی ہے۔
امریکی ریاست نیویارک میں سب سے زیادہ257 مساجد ہیں اور یہ وہی ریاست ہے جس میں وولڈ ٹریڈسنٹر واقع تھے۔ دوسرے نمبر پر ریاست کیلی فورنیا آتی ہے جس میں لگ بھگ246 مساجد ہیں؛ جب کہ ٹیکساس میں166، فلوریڈا میں 118، نیو جرسی میں109 مساجد ہیں۔ میری رہائش ریاست ورجینیا میں ہے جو اس فہرست میں62 مساجد کے ساتھ دسویں نمبر پر ہے۔
پاکستان کی نسبت امریکہ میں مساجد کی تعداد یا ان میں نمازیوں کی تعداد میں کمی میرے لیے حیران کن نہیں، کیونکہ امریکہ ایک اسلامی ملک نہیں۔ لیکن، یہ بات میرے لیے دلچسپی کا باعث تھی کہ لوگ جمعہ کی نماز میں بڑے اہتمام کے ساتھ آتے ہیں اور مساجد کے ایک حصے میں خواتین نماز ادا کر رہی ہوتی ہیں، جبکہ ایک بڑے حصے میں مرد حضرات شریک نماز ہوتے ہیں۔ کوئی ایک دوسرے کے لباس یا طریقہ نماز پر توجہ نہیں دیتا اور اپنی نماز ادا کر کے چلتا بنتا ہے۔
گذشتہ چھ ماہ کے دوران میں نے جمعہ کے جتنے بھی خطبے سنے ہیں، امام صاحبان کو اسلام کی آ فاقیت اور سچائی پر بات کرتے سنا ہے کسی فرقے پر گفتگو کرتے نہیں سنا اور نہ کسی کو کافر یا اعلیٰ ترین مسلمان قرار دیتے سنا۔ دنیا کے کونے کونے سے تعلق رکھنے والے مسلمان ایک ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔ لیکن، خطبہ انگلش میں دیا جاتا ہے۔
مسجد میں چندہ مانگنے کا رواج نہیں۔ بلکہ، اکثر لوگ کھانے پینے کی اشیا ساتھ لا کر مسجد کے دروازے کے ساتھ رکھ دیتے ہیں، تاکہ نمازی اگر کھانا چاہیں تو کھا سکیں۔ امام صاحبان ملازم پیشہ ہوتے ہیں اور نماز کے بعد اپنی ملازمت کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔
لوگ رضا کارانہ خدمات بھی سر انجام دیتے ہیں۔ جمعہ یا دوسرے مذہبی اجتماعات میں جگہ کی کمی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ایک مسجد میں دو یا تین بار نماز ادا کی جاتی ہے۔
بڑی مساجد کی ویب سائیٹس ہیں جو معلومات کی فراہمی کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
بچوں کو قرآن کی تعلیم دینے کے لیے اہتمام ہے اور اسلام سے متعلق تقریبات، سیمینارز اور محافل بھی ہوتی ہیں۔
گذشتہ جمعہ کو مسجد المصطفیٰ میں پہلی بار کسی کو اسلام قبول کرتے ہوئے دیکھا، جو میری زندگی کا ایک خوشگوار واقعہ تھا۔
مساجد کی کمی نہیں اور کالج اور اس سے اوپر کی سطح کے تعلیمی اداروں میں نماز کے لیے کمرہ مختص ہوتا ہے۔ مختلف رہائشی کالونیوں کے ساتھ ایک چھوٹی سی مسجد کا بھی اہتمام ضرور ہوتا ہے۔ لیکن، یہ بھی حقیقت ہے کہ نمازیوں کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے۔
امریکہ میں مساجد کی تعداد وولڈ ٹریڈ سنٹر پر حملوں کے بعد حیران کن طور پر بڑھی ہے۔
امریکی صحافی جیروم کی ’وائس آف امریکہ‘ ویب پر شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ پر دہشت گرد حملوں کے بعد ملک میں مساجد کی تعداد میں 74 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جیروم نے2011 ءمیں ’کونسل آن امریکن مسلم ریلیشنز‘ کے تعاون سے منعقدہ ایک سٹڈی کے سلسلے میں یہ بات تحریر کی ہے۔
امریکی ریاست نیویارک میں سب سے زیادہ257 مساجد ہیں اور یہ وہی ریاست ہے جس میں وولڈ ٹریڈسنٹر واقع تھے۔ دوسرے نمبر پر ریاست کیلی فورنیا آتی ہے جس میں لگ بھگ246 مساجد ہیں؛ جب کہ ٹیکساس میں166، فلوریڈا میں 118، نیو جرسی میں109 مساجد ہیں۔ میری رہائش ریاست ورجینیا میں ہے جو اس فہرست میں62 مساجد کے ساتھ دسویں نمبر پر ہے۔
پاکستان کی نسبت امریکہ میں مساجد کی تعداد یا ان میں نمازیوں کی تعداد میں کمی میرے لیے حیران کن نہیں، کیونکہ امریکہ ایک اسلامی ملک نہیں۔ لیکن، یہ بات میرے لیے دلچسپی کا باعث تھی کہ لوگ جمعہ کی نماز میں بڑے اہتمام کے ساتھ آتے ہیں اور مساجد کے ایک حصے میں خواتین نماز ادا کر رہی ہوتی ہیں، جبکہ ایک بڑے حصے میں مرد حضرات شریک نماز ہوتے ہیں۔ کوئی ایک دوسرے کے لباس یا طریقہ نماز پر توجہ نہیں دیتا اور اپنی نماز ادا کر کے چلتا بنتا ہے۔
گذشتہ چھ ماہ کے دوران میں نے جمعہ کے جتنے بھی خطبے سنے ہیں، امام صاحبان کو اسلام کی آ فاقیت اور سچائی پر بات کرتے سنا ہے کسی فرقے پر گفتگو کرتے نہیں سنا اور نہ کسی کو کافر یا اعلیٰ ترین مسلمان قرار دیتے سنا۔ دنیا کے کونے کونے سے تعلق رکھنے والے مسلمان ایک ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔ لیکن، خطبہ انگلش میں دیا جاتا ہے۔
مسجد میں چندہ مانگنے کا رواج نہیں۔ بلکہ، اکثر لوگ کھانے پینے کی اشیا ساتھ لا کر مسجد کے دروازے کے ساتھ رکھ دیتے ہیں، تاکہ نمازی اگر کھانا چاہیں تو کھا سکیں۔ امام صاحبان ملازم پیشہ ہوتے ہیں اور نماز کے بعد اپنی ملازمت کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔
لوگ رضا کارانہ خدمات بھی سر انجام دیتے ہیں۔ جمعہ یا دوسرے مذہبی اجتماعات میں جگہ کی کمی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ایک مسجد میں دو یا تین بار نماز ادا کی جاتی ہے۔
بڑی مساجد کی ویب سائیٹس ہیں جو معلومات کی فراہمی کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
بچوں کو قرآن کی تعلیم دینے کے لیے اہتمام ہے اور اسلام سے متعلق تقریبات، سیمینارز اور محافل بھی ہوتی ہیں۔
گذشتہ جمعہ کو مسجد المصطفیٰ میں پہلی بار کسی کو اسلام قبول کرتے ہوئے دیکھا، جو میری زندگی کا ایک خوشگوار واقعہ تھا۔