امریکہ میں ہر چار سال بعد صدارتی انتخابات ہوتے ہیں جنھیں امریکہ کے سب سے بڑے انتخابات سمجھا جاتا ہے۔ حالیہ صدارتی انتخابات کی گہما گہمی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
امریکی قوانین کے مطابق چار سال بعد نومبر کے پہلے منگل کو صدارتی انتخابات کے لیے پولنگ ہوتی ہے۔
حالیہ امریکی انتخابات چھ نومبر کو ہوئے تھے اگر یہی انتخابات رواں سال ہوتے تو پانچ نومبر کو ہوتےجبکہ سال 2014 میں اگر ہوتے تو چار نومبر کو مہینے کا پہلا منگل ہوتا۔
انتخابات کے بعد صدر اپنے عہدے کا حلف بیس جنوری کو اٹھاتا ہے تاہم اگر یہ اتوار کا دن ہو تو اکیس جنوری کو یہ تقریب منعقد ہوتی ہے۔ 1933 تک یہ تاریخ چار مارچ تھی لیکن آئینی ترمیم کے بعد اسے بیس جنوری مقرر کر دیا گیا۔
حالیہ انتخابات کے بعد دوبارہ صدر منتخب ہونے والے صدر اوباما نے اکیس جنوری کو اپنے عہدے کا حلف لیا کیونکہ بیس جنوری کو چھٹی مطلب اتوار کا دن تھا۔
میری معلومات کے مطابق آج تک ان دو طے شدہ اوقات میں جلدی یا دیری نہیں ہوئی اور صدر کے حلف کی تقریب کو یادگار بنایا جاتا ہے جس پر ہر امریکی فخر کرتا ہے۔
آج یہ ساری باتیں مجھے اس وقت یاد آ رہی ہیں جب پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار جمہوری حکومت نے اپنےپانچ سال مکمل کیے ہیں اور نگران وزیر اعظم کے لیے اتفاق رائے نہیں ہو رہا یا پورے پاکستان میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں جس پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو اعتماد ہو۔
پاکستان میں انتخابات کی شفافیت کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے لیکن نگران وزیر اعظم کے نام پر پہلے اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے اضافی وقت میں جو فوائد حاصل کیے وہ ضرور سوالیہ نشان ہیں۔
بجلی کا بل جمع کروانا ہو یا کسی امتحان یا داخلے کی فیس، ہم پاکستانیوں کی اکثریت آخری تاریخ کا انتظار کرتی ہے اور کرے بھی کیوں نہ ہمارے رہنما بھی تو آخری وقت کا انتظار کر رہے ہیں اور پوری قوم کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔
امریکہ میں نگران حکومتوں کا تصور نہیں اور ادارے اتنے مضبوط ہیں کہ نئے صدر کے انتخاب کے باوجود اڑھائی ماہ کے لگ بھگ پرانا صدر فرائض سر انجام دیتا ہے لیکن اس دوران اس پر سرکاری رقوم جو کہ عوام کی ٹیکس منی ہوتی ہے پر اپنی یا پارٹی کی مہم کی الزام تراشی نہیں ہوتی اور نہ ایسا کیا جاتا ہے۔
خبروں کے مطابق ہمارے پاکستان کی مرکزی حکومت نے آخری دو ایام میں خصوصی احکامات کے ذریعے چھٹی کے باوجود بڑی رقوم خرچ کرنے کے احکامات دیئے اور پنجاب حکومت نے سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے کے اشتہار دے کر رائے عامہ ہموار کر نے کی کوشش کی۔
مجھے اکثر جاننے والے یا پڑھنے والے اپنے کمنٹس میں کہتے ہیں کہ آپ امریکہ کی تعریفیں کرتے ہیں لیکن دراصل میں نظام کا موازنہ کر رہا ہوں ، فیصلہ تو عوام نے کرنا ہے۔
عبدل کا امریکہ(Facebook)
امریکی قوانین کے مطابق چار سال بعد نومبر کے پہلے منگل کو صدارتی انتخابات کے لیے پولنگ ہوتی ہے۔
حالیہ امریکی انتخابات چھ نومبر کو ہوئے تھے اگر یہی انتخابات رواں سال ہوتے تو پانچ نومبر کو ہوتےجبکہ سال 2014 میں اگر ہوتے تو چار نومبر کو مہینے کا پہلا منگل ہوتا۔
انتخابات کے بعد صدر اپنے عہدے کا حلف بیس جنوری کو اٹھاتا ہے تاہم اگر یہ اتوار کا دن ہو تو اکیس جنوری کو یہ تقریب منعقد ہوتی ہے۔ 1933 تک یہ تاریخ چار مارچ تھی لیکن آئینی ترمیم کے بعد اسے بیس جنوری مقرر کر دیا گیا۔
حالیہ انتخابات کے بعد دوبارہ صدر منتخب ہونے والے صدر اوباما نے اکیس جنوری کو اپنے عہدے کا حلف لیا کیونکہ بیس جنوری کو چھٹی مطلب اتوار کا دن تھا۔
میری معلومات کے مطابق آج تک ان دو طے شدہ اوقات میں جلدی یا دیری نہیں ہوئی اور صدر کے حلف کی تقریب کو یادگار بنایا جاتا ہے جس پر ہر امریکی فخر کرتا ہے۔
آج یہ ساری باتیں مجھے اس وقت یاد آ رہی ہیں جب پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار جمہوری حکومت نے اپنےپانچ سال مکمل کیے ہیں اور نگران وزیر اعظم کے لیے اتفاق رائے نہیں ہو رہا یا پورے پاکستان میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں جس پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو اعتماد ہو۔
مجھے اکثر جاننے والے یا پڑھنے والے اپنے کمنٹس میں کہتے ہیں کہ آپ امریکہ کی تعریفیں کرتے ہیں لیکن دراصل میں نظام کا موازنہ کر رہا ہوں ، فیصلہ تو عوام نے کرنا ہے۔
پاکستان میں انتخابات کی شفافیت کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے لیکن نگران وزیر اعظم کے نام پر پہلے اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے اضافی وقت میں جو فوائد حاصل کیے وہ ضرور سوالیہ نشان ہیں۔
بجلی کا بل جمع کروانا ہو یا کسی امتحان یا داخلے کی فیس، ہم پاکستانیوں کی اکثریت آخری تاریخ کا انتظار کرتی ہے اور کرے بھی کیوں نہ ہمارے رہنما بھی تو آخری وقت کا انتظار کر رہے ہیں اور پوری قوم کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔
امریکہ میں نگران حکومتوں کا تصور نہیں اور ادارے اتنے مضبوط ہیں کہ نئے صدر کے انتخاب کے باوجود اڑھائی ماہ کے لگ بھگ پرانا صدر فرائض سر انجام دیتا ہے لیکن اس دوران اس پر سرکاری رقوم جو کہ عوام کی ٹیکس منی ہوتی ہے پر اپنی یا پارٹی کی مہم کی الزام تراشی نہیں ہوتی اور نہ ایسا کیا جاتا ہے۔
خبروں کے مطابق ہمارے پاکستان کی مرکزی حکومت نے آخری دو ایام میں خصوصی احکامات کے ذریعے چھٹی کے باوجود بڑی رقوم خرچ کرنے کے احکامات دیئے اور پنجاب حکومت نے سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے کے اشتہار دے کر رائے عامہ ہموار کر نے کی کوشش کی۔
مجھے اکثر جاننے والے یا پڑھنے والے اپنے کمنٹس میں کہتے ہیں کہ آپ امریکہ کی تعریفیں کرتے ہیں لیکن دراصل میں نظام کا موازنہ کر رہا ہوں ، فیصلہ تو عوام نے کرنا ہے۔
عبدل کا امریکہ(Facebook)