واشنگٹن —
میں نے بلاگ کل لکھنا تھا لیکن کسی وجہ سے تاخیر ہو گئی لیکن جب لکھنے بیٹھا تو قریبی ڈیسک پر بیٹھی وردہ خلیل نے پو چھا کہ کہاں مصروف ہو جب میں نے بتایا کہ بلاگ لکھ رہا ہوں تو وہ ہنس کر بولی کہ "تمہارا بلاگ کون پڑھے گا" پاکستان میں تو بجلی ہی نہیں۔
مجھے اچانک یاد آیا کہ جب میں امریکہ آیا تھا تو امریکہ میں میری میزبان اور کو آرڈینیٹر نے مجھے کہا کہ تم خوش قسمت ہو کہ گذشتہ ہفتے نہیں پہنچے۔ میں نے حیرانگی سے پوچھا کیوں؟
تو اس کا جواب تھا کہ گزشتہ ہفتے ہوا کے طوفان کی وجہ سے پورا دن بجلی نہیں تھی اور ایمر جنسی نافذ تھی۔ میں اندر ہی اندر ہنس رہا تھا کہ میرے وطن عزیز میں تو بعض علاقوں میں بجلی آتی ہی کبھی کبھی ہے۔
یہ کوئی حیرانگی والی بات تو نہیں کی امریکہ میں بجلی نہیں جاتی لیکن مجھے پورا یقین تھا کہ سینڈی طوفان کے دوران بجلی ضرور جائے گی اور مقامی انتظامیہ نے پاور بریک ڈاؤن کی وارننگ بھی جاری کی تھی لیکن میری یہ حسرت اس دوران بھی پوری نہ ہو سکی۔
امریکہ کا سارا نظام بجلی کا مرہون منت ہے اگر بجلی کی مرمت درکار ہو یا فنی خرابی پیدا ہو جائے تو کا لج بند ہو جاتا ہے، ریلوے کا نظام بند ہو جاتا ہے، بڑے شاپنگ پلازہ اپنا کاروبار بند کر دیتے ہیں۔،مختصر یہ کہ نظام زندگی معطل ہو جاتا ہے۔
میرے شروع کے دنوں میں اکثر موبائل فون چارج پر لگا دیتا تھا کہ کیا پتا بعد میں لائٹ چلی جائے اور یہ ڈر ہوتا بھی کیوں کہ پاکستان میں بجلی سب سے بڑا مسئلہ ہے فیکٹریاں بند ہوتی جا رہی ہیں اور توانائی بحران کی وجہ سے سرمایہ کاری میں نمایاں کمی آ رہی ہے۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں19855 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے لیکن کبھی فرنس آئل اور کبھی ڈیموں میں پانی کی کمی کی وجہ سے اتنی بجلی پیدا ہی ہوتی، جس کی وجہ سے کئی گھنٹوں تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ معمول ہے۔
حیرانگی اس بات پر ہوتی ہے کہ ہمارا بجلی کا ہر بڑا منصوبہ متنازع ہے اور قومی مفاد میں فیصلوں پر ووٹ کو ترجیح دی جاتی ہے۔
امریکہ اور پاکستان میں موازنہ تو نہیں کررہا لیکن یہاں پچاس ریاستوں کے درمیان اتنے مسائل نہیں جتنے امریکہ کی ایک بڑی ریاست سے بھی چھوٹے پاکستان کے چار صوبوں کے درمیان موجود ہیں۔
باہمی مفاد کے نام پر تو سب اکھٹے ہو جاتے ہیں لیکن ملک میں بجلی کے بحران پر کوئی متفقہ فیصلہ نہیں ہو سکا۔
اب پاکستان میں بجلی نہ بھی ہو تو نظام زندگی نہیں رکتا کیونکہ لوگوں کو عادت ہو گئی ہے لیکن اگر بجلی نہ ہو ئی تو میرا بلاگ کون پڑے گا؟
عبدل کا امریکہ(Facebook)
مجھے اچانک یاد آیا کہ جب میں امریکہ آیا تھا تو امریکہ میں میری میزبان اور کو آرڈینیٹر نے مجھے کہا کہ تم خوش قسمت ہو کہ گذشتہ ہفتے نہیں پہنچے۔ میں نے حیرانگی سے پوچھا کیوں؟
تو اس کا جواب تھا کہ گزشتہ ہفتے ہوا کے طوفان کی وجہ سے پورا دن بجلی نہیں تھی اور ایمر جنسی نافذ تھی۔ میں اندر ہی اندر ہنس رہا تھا کہ میرے وطن عزیز میں تو بعض علاقوں میں بجلی آتی ہی کبھی کبھی ہے۔
یہ کوئی حیرانگی والی بات تو نہیں کی امریکہ میں بجلی نہیں جاتی لیکن مجھے پورا یقین تھا کہ سینڈی طوفان کے دوران بجلی ضرور جائے گی اور مقامی انتظامیہ نے پاور بریک ڈاؤن کی وارننگ بھی جاری کی تھی لیکن میری یہ حسرت اس دوران بھی پوری نہ ہو سکی۔
امریکہ کا سارا نظام بجلی کا مرہون منت ہے اگر بجلی کی مرمت درکار ہو یا فنی خرابی پیدا ہو جائے تو کا لج بند ہو جاتا ہے، ریلوے کا نظام بند ہو جاتا ہے، بڑے شاپنگ پلازہ اپنا کاروبار بند کر دیتے ہیں۔،مختصر یہ کہ نظام زندگی معطل ہو جاتا ہے۔
امریکہ کا سارا نظام بجلی کا مرہون منت ہے اگر بجلی کی مرمت درکار ہو یا فنی خرابی پیدا ہو جائے تو کا لج بند ہو جاتا ہے، ریلوے کا نظام بند ہو جاتا ہے، بڑے شاپنگ پلازہ اپنا کاروبار بند کر دیتے ہیں اور اگر مختصر کہا جائے تو نظام زندگی معطل ہو جاتا ہے۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں19855 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے لیکن کبھی فرنس آئل اور کبھی ڈیموں میں پانی کی کمی کی وجہ سے اتنی بجلی پیدا ہی ہوتی، جس کی وجہ سے کئی گھنٹوں تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ معمول ہے۔
حیرانگی اس بات پر ہوتی ہے کہ ہمارا بجلی کا ہر بڑا منصوبہ متنازع ہے اور قومی مفاد میں فیصلوں پر ووٹ کو ترجیح دی جاتی ہے۔
امریکہ اور پاکستان میں موازنہ تو نہیں کررہا لیکن یہاں پچاس ریاستوں کے درمیان اتنے مسائل نہیں جتنے امریکہ کی ایک بڑی ریاست سے بھی چھوٹے پاکستان کے چار صوبوں کے درمیان موجود ہیں۔
باہمی مفاد کے نام پر تو سب اکھٹے ہو جاتے ہیں لیکن ملک میں بجلی کے بحران پر کوئی متفقہ فیصلہ نہیں ہو سکا۔
اب پاکستان میں بجلی نہ بھی ہو تو نظام زندگی نہیں رکتا کیونکہ لوگوں کو عادت ہو گئی ہے لیکن اگر بجلی نہ ہو ئی تو میرا بلاگ کون پڑے گا؟
عبدل کا امریکہ(Facebook)