امریکہ آنے کے بعد دوستوں کے بہت سارے سوال تھےاور میں نے اپنے مختصر تجربے کی روشنی میں ہر سوال کا جواب دینے کی کوشش کی لیکن ہر جواب سننے کے بعد مجھے یہی بات سننے کو ملی کہ ہم تو بہت پیچھے ہیں ۔
میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کیا پاکستان میں سب برا ہے؟ پاکستانی معاشرے میں کوئی خوبی نہیں؟ امریکی معاشرہ میں کوئی خامی نہیں؟
مجھے اپنے سوال کا جواب اس دن ملا جب امریکہ کے ایک ایلمنٹری سکول میں فائرینگ کے ایک دلخراش واقعہ میں بیس معصوم بچوں سمیت ستائیس افراد ہلاک ہوگے۔ اس واقعہ پر جہاں سارا امریکہ سوگوار تھا وہاں میں نے پاکستانیوں کی آنکھیں بھی نم دیکھی۔
فائرینگ کرنے والابیس سال کا امریکی نوجوان تھا اوراپنی ماں کے ساتھ رہ رہا تھا۔ امریکہ میں یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی اسی نوعیت کے چار واقعات پیش آچکے ہیں۔
امریکی میڈیا میں اس موضوع پر کافی بحث ہوئی کہ معصوم بچوں کے قتل کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ جہاں پر تشدد فلموں سمیت دوسری کئی وجوہات کا جائزہ لیا گیا وہاں خاندانوں کی تقسیم اور افراد کی تنہائی یا اکیلے پن کو بھی زہنی انتشار کی وجہ قرار دیا گیا۔ امریکہ میں بچے زیادہ دیر تک اپنے والدین کے ساتھ نہیں رہتے اوراٹھارہ سال کی عمر میں خود مختار تصور کیے جاتے ہیں۔ خاندانی سطح پر اجتماعیت کی کمی ہے بعض اوقات نہ ہونے کے برابر ہے۔۔
پاکستان میں ہر روز لوگ مرتے ہیں اورپاکستان طویل عرصہ سے دھشت گردی کی لپیٹ میں ہے لیکن سکول میں معصوم بچوں کو اس طرح نشانہ بنانے کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ جس میں کسی زہنی مریض نے اپنا غصہ یا بے بسی معصوموں پر نکالا ہو۔
پاکستانی معاشرے میں جائنٹ فیملی سسٹم ہے جس میں خاندان طویل عرصہ اگھٹے رہتے ہیں ۔ خاندان میں سب سے بڑا خاندان کا سربراہ ہوتا ہےاور اس کی وفات پر بڑا بھائی یہ زمہ داری سنبھالتا ہے۔ انکل بھی پرورش اور نگرانی کہ ان زمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہوتے ہیں اور ادا بھی کرتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں بچہ اپنے والد کے فیصلے کے خلاف دادا کے پاس اپیل کر سکتا ہے جبکہ جہاں بچوں کی نگرانی خاندان کے تمام بڑے کرتے ہیں وہاں بچوں کے معاملات کو بھی گھر یا خاندان کی سطح پر حل کر لیا جاتا ہے۔
میرے چند ماہ کے تجربے کے مطابق امریکی معاشرے میں نفسا نفسی ہے ہر شخص انفرادیت کا قائل ہے۔ بنیادی حقوق کے نام پر خاندانوں میں اجتماعیت کو ختم کر دیا گیا ہے۔
سینڈی ہک ہو یا ورجینیا ٹیک, تنہائی کا شکار افراد اس طرح کے واقعات کا سبب بنتے ہیں۔
امریکہ میں اس واقعہ کے بعد گن کنٹرول پر بحث تیز ہو گئی ہے لیکن امریکی سینٹر چارلز شومر کی یہ بات بہت اہم ہے.
"اسلحے سے متعلق بات نہ سُن کر اسلحے کے تشدد کا تدارک کرنا ایسا ہی ہے جیسے سگریٹ کی بات نہ کرتے ہوئے پھیپھڑوں کے سرطان کےکنٹرول کی تدبیر کرنا"
مجھے پاکستانی معاشرے کی اس خوبی پر فخر ہے لیکن یہ خدشہ بھی ہے کہ یہ خوبی تیزی سے روبہ زوال ہے۔
_
عبدل کا امریکہ فیس بک
میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کیا پاکستان میں سب برا ہے؟ پاکستانی معاشرے میں کوئی خوبی نہیں؟ امریکی معاشرہ میں کوئی خامی نہیں؟
مجھے اپنے سوال کا جواب اس دن ملا جب امریکہ کے ایک ایلمنٹری سکول میں فائرینگ کے ایک دلخراش واقعہ میں بیس معصوم بچوں سمیت ستائیس افراد ہلاک ہوگے۔ اس واقعہ پر جہاں سارا امریکہ سوگوار تھا وہاں میں نے پاکستانیوں کی آنکھیں بھی نم دیکھی۔
فائرینگ کرنے والابیس سال کا امریکی نوجوان تھا اوراپنی ماں کے ساتھ رہ رہا تھا۔ امریکہ میں یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی اسی نوعیت کے چار واقعات پیش آچکے ہیں۔
امریکی میڈیا میں اس موضوع پر کافی بحث ہوئی کہ معصوم بچوں کے قتل کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ جہاں پر تشدد فلموں سمیت دوسری کئی وجوہات کا جائزہ لیا گیا وہاں خاندانوں کی تقسیم اور افراد کی تنہائی یا اکیلے پن کو بھی زہنی انتشار کی وجہ قرار دیا گیا۔ امریکہ میں بچے زیادہ دیر تک اپنے والدین کے ساتھ نہیں رہتے اوراٹھارہ سال کی عمر میں خود مختار تصور کیے جاتے ہیں۔ خاندانی سطح پر اجتماعیت کی کمی ہے بعض اوقات نہ ہونے کے برابر ہے۔۔
پاکستان میں ہر روز لوگ مرتے ہیں اورپاکستان طویل عرصہ سے دھشت گردی کی لپیٹ میں ہے لیکن سکول میں معصوم بچوں کو اس طرح نشانہ بنانے کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ جس میں کسی زہنی مریض نے اپنا غصہ یا بے بسی معصوموں پر نکالا ہو۔
پاکستانی معاشرے میں جائنٹ فیملی سسٹم ہے جس میں خاندان طویل عرصہ اگھٹے رہتے ہیں ۔ خاندان میں سب سے بڑا خاندان کا سربراہ ہوتا ہےاور اس کی وفات پر بڑا بھائی یہ زمہ داری سنبھالتا ہے۔ انکل بھی پرورش اور نگرانی کہ ان زمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہوتے ہیں اور ادا بھی کرتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں بچہ اپنے والد کے فیصلے کے خلاف دادا کے پاس اپیل کر سکتا ہے جبکہ جہاں بچوں کی نگرانی خاندان کے تمام بڑے کرتے ہیں وہاں بچوں کے معاملات کو بھی گھر یا خاندان کی سطح پر حل کر لیا جاتا ہے۔
میرے چند ماہ کے تجربے کے مطابق امریکی معاشرے میں نفسا نفسی ہے ہر شخص انفرادیت کا قائل ہے۔ بنیادی حقوق کے نام پر خاندانوں میں اجتماعیت کو ختم کر دیا گیا ہے۔
سینڈی ہک ہو یا ورجینیا ٹیک, تنہائی کا شکار افراد اس طرح کے واقعات کا سبب بنتے ہیں۔
امریکہ میں اس واقعہ کے بعد گن کنٹرول پر بحث تیز ہو گئی ہے لیکن امریکی سینٹر چارلز شومر کی یہ بات بہت اہم ہے.
"اسلحے سے متعلق بات نہ سُن کر اسلحے کے تشدد کا تدارک کرنا ایسا ہی ہے جیسے سگریٹ کی بات نہ کرتے ہوئے پھیپھڑوں کے سرطان کےکنٹرول کی تدبیر کرنا"
مجھے پاکستانی معاشرے کی اس خوبی پر فخر ہے لیکن یہ خدشہ بھی ہے کہ یہ خوبی تیزی سے روبہ زوال ہے۔
_
عبدل کا امریکہ فیس بک