واشنگٹن —
امریکہ میں صدارتی انتخابات مکمل ہو چکے جس میں دوسری مدت کے لیے براک اوباما دوبارہ صدر منتخب ہوئے۔
ایک صحافی کی حیثیت سے، مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ میں نے اس انتخابی مہم کو بہت قریب سے دیکھا۔
میں آپ سے چند ایسی باتیں شیئر کرنا چاہتا ہوں جو پاکستان کے لحاظ سے کافی مختلف اور دلچسپ ہیں۔
امریکہ 50 ریاستوں اور دارلحکومت واشنگٹن ڈی سی پر مشتمل ہے، اور امریکہ کی صرف ایک ریاست الاسکا رقبہ کے اعتبار سے پاکستان سے بڑی ہے۔
امریکہ کی آبادی 30 کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے، جبکہ پاکستان کی آبادی لگ بھگ 18 کروڑ ہے۔
میرا خیال تھا کہ امریکہ جیسے بڑے ملک میں انتخابی مہم کی تشہیر پر جہاں اربوں ڈالرز درکار ہوں گے وہاں ماحول کو اپنی اصل شکل میں بحال رکھنے کے لیے بھی کثیر رقوم درکار ہوں گی۔
میں صدارتی انتخابات سے قبل واشنگٹن ڈی سی اور گرد و نواح میں سفر کے دوران صدارتی امیدواروں براک اوباما اور مٹ رومنی کے پوسٹرز، بینرز، دیو قامت پینا فلیکس دیکھنے کا منتظر رہا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ مرکزی شاہراہوں پر بڑی ریلیاں ہوں گی اورصدارتی امیدوار خطاب کرنے بھی آئیں گے اور ممکن ہےصدر اوباما یا گورنر رومنی کو قریب سے دیکھنے کا موقع مل جائے۔
انتخابی مہم بھرپور طریقے سے چلی۔ لیکن سب کچھ بہت مختلف تھا۔
بڑے بڑے بینرز اور پوسٹرز کی جگہ چھوٹے پلے کارڈز دکھائی دیے جو سڑک کے کنارے نصب کیے گئے اور انتخابات کے بعد اتار لیے گئے۔ نہ کوئی شور ہوا نہ ہنگامہ۔ کسی دیوار پر الیکشن تو کیا کسی طرح کی کوئی وال چاکنگ بھی دیکھنے کو نہیں ملی۔
انتخابی ریلی کے بجائے جلسے ہوئے لیکن ایسی جگہ جہاں عام آدمی کو کسی مشکل کا سامنا نا کرنا پڑے۔
عام لوگوں کی پیغام رسانی کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا گیا۔
ووٹرز تک پہنچنے کے لیے ’ڈور ٹو ڈور‘ مہم چلائی گئی اور فون کال کے ذریعے ہر ووٹر تک پہنچنے کی کوشش بھی کی گئی۔
لیکن، اس سارے عمل میں استعمال ہونے والی افرادی قوت رضاکاروں پر مشتمل تھی۔
امریکہ میں والنٹیرازم بہت زیادہ ہے اور لوگ اپنی مرضی سے مختلف سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں بغیر لالچ حصہ لیتے ہیں اور اس انتخابی مہم میں چونکہ میں نے خود بھی رضاکارانہ کام کیا۔ اس طرح مجھے سارے عمل کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔
لوگوں کی اکثریت اپنی گاڑیوں پر مختلف رہائشی علاقوں میں جاتی تھی اور دروازے پر دستک دے کر اپنے پسندیدہ امیدوار کا پیغام دیتی تھی۔ حیران کی بات یہ بھی ہے کہ لوگ صاف کہہ دیتے ہیں کہ وہ کس امیدوار کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔
امریکی عوام اپنے ووٹ کا فیصلہ زیادہ تر ان صدارتی ڈبیٹس کے بعد کرتی ہے جن میں صدارتی امیدواران اپنی پالیسوں پر آمنے سامنے بحث کرتے اور سوالات کے جواب دیتے ہیں۔
صرف الزام برائے الزام کے بجائے، وہ ٹھوس دلیل پر بات کرکے عوام کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
امریکہ میں صدارتی انتخابات مکمل ہو چکے جس میں دوسری مدت کے لیے براک اوباما دوبارہ صدر منتخب ہوئے۔
ایک صحافی کی حیثیت سے، مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ میں نے اس انتخابی مہم کو بہت قریب سے دیکھا۔
میں آپ سے چند ایسی باتیں شیئر کرنا چاہتا ہوں جو پاکستان کے لحاظ سے کافی مختلف اور دلچسپ ہیں۔
امریکہ 50 ریاستوں اور دارلحکومت واشنگٹن ڈی سی پر مشتمل ہے، اور امریکہ کی صرف ایک ریاست الاسکا رقبہ کے اعتبار سے پاکستان سے بڑی ہے۔
امریکہ کی آبادی 30 کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے، جبکہ پاکستان کی آبادی لگ بھگ 18 کروڑ ہے۔
میرا خیال تھا کہ امریکہ جیسے بڑے ملک میں انتخابی مہم کی تشہیر پر جہاں اربوں ڈالرز درکار ہوں گے وہاں ماحول کو اپنی اصل شکل میں بحال رکھنے کے لیے بھی کثیر رقوم درکار ہوں گی۔
میں صدارتی انتخابات سے قبل واشنگٹن ڈی سی اور گرد و نواح میں سفر کے دوران صدارتی امیدواروں براک اوباما اور مٹ رومنی کے پوسٹرز، بینرز، دیو قامت پینا فلیکس دیکھنے کا منتظر رہا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ مرکزی شاہراہوں پر بڑی ریلیاں ہوں گی اورصدارتی امیدوار خطاب کرنے بھی آئیں گے اور ممکن ہےصدر اوباما یا گورنر رومنی کو قریب سے دیکھنے کا موقع مل جائے۔
انتخابی مہم بھرپور طریقے سے چلی۔ لیکن سب کچھ بہت مختلف تھا۔
بڑے بڑے بینرز اور پوسٹرز کی جگہ چھوٹے پلے کارڈز دکھائی دیے جو سڑک کے کنارے نصب کیے گئے اور انتخابات کے بعد اتار لیے گئے۔ نہ کوئی شور ہوا نہ ہنگامہ۔ کسی دیوار پر الیکشن تو کیا کسی طرح کی کوئی وال چاکنگ بھی دیکھنے کو نہیں ملی۔
انتخابی ریلی کے بجائے جلسے ہوئے لیکن ایسی جگہ جہاں عام آدمی کو کسی مشکل کا سامنا نا کرنا پڑے۔
عام لوگوں کی پیغام رسانی کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا گیا۔
ووٹرز تک پہنچنے کے لیے ’ڈور ٹو ڈور‘ مہم چلائی گئی اور فون کال کے ذریعے ہر ووٹر تک پہنچنے کی کوشش بھی کی گئی۔
لیکن، اس سارے عمل میں استعمال ہونے والی افرادی قوت رضاکاروں پر مشتمل تھی۔
امریکہ میں والنٹیرازم بہت زیادہ ہے اور لوگ اپنی مرضی سے مختلف سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں بغیر لالچ حصہ لیتے ہیں اور اس انتخابی مہم میں چونکہ میں نے خود بھی رضاکارانہ کام کیا۔ اس طرح مجھے سارے عمل کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔
لوگوں کی اکثریت اپنی گاڑیوں پر مختلف رہائشی علاقوں میں جاتی تھی اور دروازے پر دستک دے کر اپنے پسندیدہ امیدوار کا پیغام دیتی تھی۔ حیران کی بات یہ بھی ہے کہ لوگ صاف کہہ دیتے ہیں کہ وہ کس امیدوار کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔
امریکی عوام اپنے ووٹ کا فیصلہ زیادہ تر ان صدارتی ڈبیٹس کے بعد کرتی ہے جن میں صدارتی امیدواران اپنی پالیسوں پر آمنے سامنے بحث کرتے اور سوالات کے جواب دیتے ہیں۔
صرف الزام برائے الزام کے بجائے، وہ ٹھوس دلیل پر بات کرکے عوام کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔