رسائی کے لنکس

پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے باوجود علی وزیر کی اسمبلی اجلاس میں شرکت میں رکاوٹ کیاہے؟


پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر، فائل فوٹو
پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر، فائل فوٹو

شمالی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر کو قومی اسمبلی کے اسپیکر کی جانب سے جاری کردہ پروڈکشن آرڈرز جاری کیے جانے کے باوجود بھی بجٹ اجلاس میں شرکت کے لیے نہیں لے جایا گیا۔ علی وزیر گزشتہ 18 ماہ سے کراچی کی سینٹرل جیل میں ایک ہی الزام کے تحت درج چار مختلف مقدمات میں قید ہیں۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی دارلحکومت میں جاری بجٹ اجلاس میں شرکت کے لیے علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر ملنے سے قبل ہی انہیں منگل اور بدھ کی درمیانی رات جناح اسپتال علاج کے لیے منتقل کردیا گیا۔ علی وزیر کے وکیل قادر لالہ ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ ماہ انہیں کمر کی تکلیف کے باعث اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں رکھایا گیا جہاں ان کا ایم آر آئی ہونے کے بعد ڈاکٹرز نے فیزیوتھراپی کرانے کا مشورہ دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ سینٹرل جیل میں جدید مشینوں سے فیزیوتھراپی کی سہولت دستیاب نہیں ہے، جس کی وجہ سے انہیں جناح اسپتال منتقل کرنا ضروری تھا، لیکن جیل انتظامیہ نے انہیں ایک مہینے بعد پہلی بار جیل سے اسپتال اس لیے منتقل کیا گیا تاکہ وہ اسمبلی اجلاس میں شرکت نہ کرسکیں۔ قادر لالہ کے مطابق انتظامیہ کا یہ اقدام بدنیتی پر مبنی تھا۔

علی وزیر کی جانب سے بھی ایک ویڈیو بیان میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ اسپتال میں ان پر دو بار قاتلانہ حملہ کیا گیا ہے۔ جس پر ان کی جانب سے اسپتال کے احاطے میں دھرنا بھی دیا گیا۔ جب کہ پشتونخواہ عوامی ملی پارٹی اور پی ٹی ایم ورکرز کی جانب سے احتجاج کے پیش نظر بالآخر علی وزیر کو ایک بار پھر جمعرات کی شام اسپتال سے جیل منتقل کردیا گیا، لیکن انہیں اب تک اسلام آباد اجلاس میں شرکت کے لیے نہیں لے جایا گیا ہے۔

ادھر انسانی حقوق کی تنظیمیں، سماجی کارکن اور سوشل میڈیا پر صارفین علی وزیر کو اسپیکر کے حکم کے باوجود اجلاس میں شرکت کی اجازت نہ دیے جانے پر شدید تنقید کررہی ہیں۔ پنجاب بار کونسل نے اپنے ایک بیان میں اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہوئے قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھی اپنے ایک بیان میں علی وزیر کے ساتھ عمل پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اور انہیں قومی اسمبلی کا ممبر ہونے کے باوجود اہم بجٹ سیشن میں پیش نہ کرنے پر جمہوریت کی بنیادی روایات سے نفی قرار دیا گیا ہے۔ قومی کمیشن نے امید کا اظہار کیا ہے کہ وفاقی اور سندھ حکومت علی وزیر کو اسلام آباد منتقل کرکے انہیں اجلاس میں شرکت کی سہولت فراہم کرکے اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کریں گے۔


علی وزیر کو رواں سال اپریل میں اس وقت اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا جب عمران خان حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تھی اور اپوزیشن جماعتوں کو گنتی پوری کرنے کے لیے ایک ایک ووٹ اہم تھا۔ پروڈکشن آرڈر ملنے کے باوجود علی وزیر کو جیل سے قومی اسمبلی نہ منتقل کرنے پر صوبائی حکومت کا موقف جاننے کے لیے ترجمان سندھ حکومت مرتضیِ وہاب اور مشیر جیل خانہ جات اعجاز جاکھرانی سے رابطے کی بارہا کوشش کی گئی لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ جب کہ ان کے وکیل قادر خان لالہ کا کہنا ہے کہ علی وزیر کی اسمبلی اجلاس میں شرکت میں رکاوٹ وہی قوتیں ڈال رہی ہیں جنہوں نے ان کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کر رکھے ہیں۔

علی وزیر کون ہیں؟

علی وزیر حال ہی میں خیبر پخنونخواہ میں ضم ہونے والے سابقہ قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے آزاد حیثیت سے منتخب رکن قومی اسمبلی ہیں جو پہلی بار رکن قومی اسمبلی بنے ہیں اور احمد زئی وزیر قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یونی ورسٹی سے تعلیم مکمل کی۔ وہ خود کو دائیں بازو کی سیاست پر یقین رکھنے والا فرد قرار دیتے ہیں۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کے والد، بھائیوں، چچا، کزنز سمیت کم ازکم 18 افراد مختلف واقعات میں ہلاک ہوچکے ہیں۔


اس دوران ان کا کاروبار تباہ کردیا گیا۔ ان کا گھر مسمار اور سیب کے باغات تباہ کردیے گئے۔ جب کہ جنوبی وزیر ستان کے صدر مقام وانا میں ان کی مارکیٹ بھی ایک آرمی افسر کی ہلاکت کی پاداش میں تباہ کردی گئی۔ ان پر اس دوران کئی بار قاتلانہ حملے بھی ہوئے۔ لیکن وہ خوش قسمتی سے بچ نکلے۔ تاہم اپنے خیالات اور نظریات کے ساتھ انہیں ایوان کے اندر اور باہر بھی ریاست مخالف بیانیے کی وجہ سے اس عرصے میں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ریاستی اداروں کے خلاف مجرمانہ سازش کے علاوہ ریاستی اداروں کے خلاف ہتک آمیز بیانات بھی دیے۔

دسمبر 2020 میں انہیں پشاور سے گرفتار کرکے کراچی منتقل کیا گیا تھا اور ان کے خلاف یہاں ریاست کے خلاف نفرت آمیز تقاریر کرکے لوگوں کو بغاوت اور فساد پر اکسانے کی دفعات کے تحت چار مقدمات قائم کیے گئے تھے۔ جس میں سے دو میں انہیں ضمانت مل چکی ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG