پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما اور جنوبی وزیرستان سے قومی اسمبلی کے رکن علی وزیر کو تمام مقدمات میں ضمانت اور ایک کیس میں بری کرنے کے عدالتی فیصلے کے بعد منگل کو کراچی جیل سے رہا کر دیا گیا۔
علی وزیر کے خلاف مجموعی طور پر 19 مقدمات درج تھے جن میں سے چار مقدمات کراچی جب کہ باقی 15 خیبر پختونخوا کے مختلف تھانوں میں درج تھے۔
علی وزیر کو دسمبر 2020 میں سینٹرل جیل کراچی منتقل کیا گیا تھا۔
کراچی کے سینئر وکیل قادر خان کے مطابق خیبرپختونخوا حکومت نے سندھ حکومت کو ایک خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اب علی وزیر کسی بھی مقدمے میں مطلوب نہیں ہیں جس کے بعد علی وزیر کی رہائی عمل میں لائی گئی ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے آٹھ فروری 2023 کو لکھے گئے خط میں علی وزیر کو رہا کرنے کا کہا گیا تھا۔
علی وزیر کو دسمبر 2020 میں پشاور سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرنے سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف تھانوں میں بھی مقدمات درج تھے۔
وہ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پالیسیوں اور اس کی دیگر ریاستی امور میں مبینہ مداخلت پر کڑی تنقید کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔
علی وزیر جنوبی وزیرستان سے آزاد حیثیت سے پہلی بار رکن اسمبلی بنے تھے۔
وہ احمد زئی وزیر قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یونی ورسٹی سے تعلیم مکمل کی تھی۔
علی وزیر خود کو دائیں بازو کی سیاست پر یقین رکھنے والا سیاست دان قرار دیتے ہیں۔ اپنے سیاسی نظریات اور اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں مبینہ کردار پر کھل کر اظہارِ خیال کرنے پر انہیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں علی وزیر کے والد، بھائیوں، چچا، کزن سمیت ان کے خاندان کے 18 افراد مختلف واقعات میں ہلاک ہوچکے ہیں۔