افغانستان پر طالبان کے قبضے کو چھ ماہ گزرنے کے بعد دارالحکومت کابل سمیت دیگر سرد علاقوں میں سرکاری یونیورسٹیوں میں ایک بار پھر سے درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
طالبان حکام نے رواں ماہ کے اوائل میں یونیورسٹی کے طلبہ کو معتدل آب و ہوا والے علاقوں میں قائم یونیورسٹوں میں جانے کی اجازت دی تھی جس کے بعد لگ بھگ 40 سرکاری یونیورسٹیوں میں تعلیمی سلسلہ دوبارہ سے شروع ہو رہا ہے۔
یونیورسٹیاں کھلنے کے بعد ہفتے کو پہلے دن کابل میں واقع ملک کی سب سے قدیم اور بڑی یونیورسٹی میں طلبہ کی حاضری کم رہی جب کہ کم ہی اساتذہ درس و تدریس کے لیے جامعہ آئے ۔
یونیورسٹیوں کی انتظامیہ نے طالبان کی اسلام کی سخت تشریح کے مطابق صنفی علیحدگی کو یقینی بنایا ہے۔ اس کے علاوہ طلبہ اور طالبات کے لیے الگ الگ دفتری اوقات کا تعین کیا گیاہے جب کہ ان کی کلاسز کے اوقات بھی الگ الگ رکھے گئے ہیں۔
علاوہ ازیں یونیورسٹی آنے والی طالبات کے لیے حجاب پہننا بھی لازمی ہے۔
خیال رہے کہ طالبان نے گزشتہ برس 15 اگست کو افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد مخلوط تعلیم پر پابندی عائد کر دی تھی۔
ہفتے کو پہلی بار جب طلبہ پھر سے یونیورسٹی آئے تو ان کا ردِ عمل ملا جھلا تھا۔
افغانستان کے نجی نیوز چینل ‘طلوع نیوز’ سے گفتگو میں رضیہ کمال کا کہنا تھا کہ وہ بہت خوش ہیں کہ اماراتِ اسلامی نے ان کی درس گاہیں دوبارہ سے کھول دی ہیں۔
خیال رہے کہ طالبان حکومت نے ملک کا سرکاری نام اماراتِ اسلامی افغانستان رکھا ہے۔
دارالحکومت کابل میں ایک طالبہ حسینات کا کہنا تھا کہ طالبات کے لیے کیمپس لائف پہلے کی نسبت بہت مختلف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب کوئی کیفے نہیں ہے اور انہیں یونیورسٹی کے برآمدے میں بھی جانے کی اجازت نہیں ہے۔
انگلش ڈپارٹمنٹ میں پڑھنے والی طالبہ، جنہوں نے اپنے آپ کو صرف بصیرہ کے طور پر متعارف کرایا، کا کہنا تھا کہ انہیں خوشی ہے کہ یونیورسٹی دوبارہ کھل گئی ہے کیوں کہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اساتذہ کی کمی ہے۔ ان کے بقول ہو سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ ان میں سے کچھ یونیورسٹی چھوڑ گئے ہوں۔
واضح رہے کہ افغانستان سے 20 برس کی طویل جنگ کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے انخلا کے بعد ہزاروں تعلیم یافتہ شہری طالبان کی انتقامی کارروائیوں کے خوف سے ملک چھوڑ چکے ہیں۔
مغربی افغان صوبے ہرات میں بھی طلبہ نے اساتذہ کی کمی کی شکایات کیں۔
فنون کی طالبہ پاریسا ناروان کا کہنا تھا کہ ان کے کچھ پروفیسرز ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں البتہ انہیں خوشی ہے کہ یونیورسٹی کے دروازے دوبارہ کھل چکے ہیں۔
طالبان نے ملک کی 150 نجی یونیورسٹیوں میں تعلیمی سلسلہ گزشتہ برس ستمبر سے شروع کرنے کی اجازت دی تھی۔ تاہم طلبہ اور طالبات کے لیے علیحدہ علیحدہ کلاسیں لازمی قرار دی گئی تھیں۔
تاہم سرکاری جامعات میں فنڈنگ کے مسائل اور اسلامی شریعہ کے مطابق طلبہ و طالبات کے لیے علیحدہ علیحدہ کلاسز کی کمی کے سبب وقت لگ گیا تھا۔
افغان محقق اور پالیسی تجزیہ کار محسن امین کا کہنا تھا کہ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے چاہے دیر سے ہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ملک بھر میں قائم یونیورسٹیوں میں خواتین کی تعلیمی کے معیار کو بہتر کیا جائے اور خواتین اساتذہ کی کمی پر توجہ دی جائے۔
امین کا کہنا تھا کہ تمام صوبوں میں لڑکیوں کے ہائی اسکول بھی جلد از جلد کھلنے چاہیئں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان نے طلبہ کو گزشتہ برس ستمبر میں سکینڈری اسکولوں میں جانے کی اجازت دی تھی البتہ لڑکیاں ابھی بھی اسکول کھلنے کے انتظار میں ہیں۔
طالبان نے رواں سال مارچ کے آخر تک تمام لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دینے کا وعدہ کیا ہے تا کہ بین الاقوامی برادری کے خدشات ختم کیے جا سکیں جیسا کہ طالبان کے 1996 سے 2001 تک کے دورِ حکومت میں تھا۔