سید مردان شاہ پیر پگارا نے 1980 کی دہائی میں کہا تھا کہ پاکستان کے انتخابات میں فرشتے بعض جماعتوں کو ووٹ ڈال جاتے ہیں۔ اس طرح غالبا پہلی بار کسی نے الیکشن میں فوج کے کردار کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے قیام اور اصغر خان کیس سے یہ بات مزید واضح ہوئی۔ پھر ہر الیکشن کے موقع پر ڈھکے چھپے الفاظ میں یہ الزام لگایا جاتا رہا۔
اس بار ڈھکا چھپا کچھ نہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے کھل کر فوج پر انتخابات میں دخل اندازی کے الزامات لگائے ہیں بلکہ بعض فوجی افسروں کے نام بھی لیے جارہے ہیں۔ ان الزامات میں اس قدر شدت آئی کہ افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کو منگل کو پریس کانفرنس کرکے ان کی تردید کرنا پڑی۔
فوج پر کیا الزامات لگائے جارہے ہیں اور ترجمان نے ان کے کیا جوابات دیے، یہ ذیل میں دیکھا جاسکتا ہے۔
الزام: فوج عام انتخابات پر اثر انداز ہو رہی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر: فوج انتخابی عمل میں الیکشن کمیشن کو تعاون فراہم کرے گی۔ عام انتخابات میں فوج کا کوئی براہ راست کردار نہیں۔ الیکشن کمیشن نے ہمیں سیکورٹی سے متعلق کچھ ذمے داریاں دی ہیں۔ بیلٹ پیپرز گننا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔
الزام: فوج قبل از انتخابات دھاندلی کررہی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر: ملک کی تاریخ میں ایسا کوئی الیکشن نہیں ہوا جس میں دھاندلی کے الزامات نہ لگائے گئے ہوں۔ ہم کیسے ساڑھے دس کروڑ افراد سے کہہ سکتے ہیں کہ کس کو ووٹ دیں؟ ہم کیسے ساڑھے تین لاکھ فوجیوں کو خفیہ ہدایت دے سکتے ہیں کہ کیا کرنا ہے؟
الزام: فوج بعض سیاسی جماعتوں کی مدد کر رہی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر: ہماری کوئی پسندیدہ سیاسی جماعت نہیں۔ عوام کو جو پارٹی اور لیڈر پسند ہے، وہ اسے کسی خوف کے بغیر ووٹ ڈالیں۔ عوام کے ووٹوں سے جو وزیراعظم آئے گا، ہمیں قبول ہوگا۔
الزام: فوج نے انتخابی امیدواروں کی وفاداریاں تبدیل کروائیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر: ہر الیکشن سے پہلے انتخابی امیدوار وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں۔ اس بار بھی ایسا ہوا ہے اور اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ فوج کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
الزام: آئی ایس آئی نے ملتان میں انتخابی امیدوار پر پارٹی بدلنے کے لیے دباؤ ڈالا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر: اس معاملے میں آئی ایس آئی کا کوئی کردار نہیں۔ محکمہ زراعت سے معلوم کریں کہ وہ ایک سال سے اس شخص کے خلاف کارروائی کررہا تھا یا نہیں۔ یہ رنگ دینا ٹھیک نہیں کہ الیکشن کی وجہ سے ایسا ہوا۔
الزام: جیپ کے انتخابی نشان والے امیدواروں کو فوج کی حمایت حاصل ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر: انتخابی نشانات فوج یا آئی ایس آئی جاری نہیں کرتی۔ یہ الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ انتخابی نشان والی جیپ فوج کی نہیں۔ اس قسم کی جیپیں انتخابی امیدواروں کے پاس ہیں۔
الزام: کالعدم تنظیمیں فوج کی رضامندی سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر: کسی کے الیکشن میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ فوج نہیں کرتی۔ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کو قانون کے مطابق رجسٹر کیا جاتا ہے۔ اگر کسی کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی ہے تو ایسا قانون کے مطابق ہوا ہوگا۔
الزام: فوج سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر: ہم سوشل میڈیا کو کنٹرول نہیں کرسکتے اور نہ کرنا چاہتے ہیں۔ جب کوئی حدود پار کرتا ہے تب کارروائی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے اچھا کام کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر جو کام ملک کے خلاف ہو گا، اسے نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔