سپریم کورٹ نے سابق وزیرِ مملکت برائے داخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما طلال چوہدری کے خلاف توہینِ عدالت کا فیصلہ محفوظ کرلیا یے۔
عدالت نے فیصلہ سنانے کی تاریخ نہیں دی لیکن فیصلے کے روز طلال چوہدری کو حاضری یقینی بنانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے طلال چوہدری کے وکیل کی فیصلہ الیکشن کے بعد سنانے کی استدعا بھی مسترد کردی ہے۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 15 مارچ کو سابق وزیرِ مملکت طلال چوہدری کے خلاف توہینِ عدالت کے کیس میں فرد ِجرم عائد کی تھی۔
طلال چوہدری پر ایک جلسے میں سپریم کورٹ کے خلاف توہین آمیز جملے کہنے کا الزام ہے۔ اس سے قبل عدالتِ عظمیٰ مسلم لیگ (ن) کے دیگر دو رہنماؤں نہال ہاشمی اور دانیال عزیر کو بھی توہینِ عدالت پر نااہل قرار دے چکی ہے۔
بدھ کو جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے طلال چوہدری کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت کی جس میں ملزم کے وکیل کامران مرتضیٰ نے حتمی دلائل دیے۔
اپنے دلائل میں وکیلِ صفائی نے کہا کہ یکم فروری 2018ء کو رجسٹرار سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کو نوٹ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ طلال چوہدری کا کلپ توہین آمیز ہے۔ اس مواد پر چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیا۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ کلپ میں طلال چوہدری نے کہا تھا کہ عدالتی مینڈیٹ کی توہین سب سے بڑی توہین ہے۔ چیف جسٹس کے حکم کے بعد 22 تقاریر جمع کی گئیں جن میں سے صرف تین، تین منٹس کی دو تقاریر پر کارروائی شروع کی گئی۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ توہینِ عدالت کے نوٹس میں وجوہات کا تعین نہیں کیا گیا۔ ایک سو سترہ ٹی وی چینلز میں سے صرف دو نجی چینلز کی کی مانیٹرنگ کی گئی۔ دونوں ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والی تقریر کا فوری نوٹس پیمرا نے بھی نہیں لیا۔
جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے پیمرا کو دیکھ کر کوئی فیصلہ نہیں کرنا۔ عدالت اپنے قانون کے تحت فیصلہ کرے گی۔
کامران مرتضی کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی کے معاملے میں درگزر کا ثبوت دیا ہے۔ توہینِ عدالت کی سزا کاٹنے کے بعد نہال ہاشمی نے جو الفاظ استعمال کیے وہ انتہائی نا مناسب تھے۔ انہوں نے ججز کی ذات سے متعلق بات کی۔ اس کے باوجود عدالت نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں معاف کردیا۔ فیصل رضا عابدی نے عدالت کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا، ایک حضرت صاحب نے بھی عدلیہ کے بارے میں ریمارکس دیے۔ فیض آباد والے مولوی کی تقریریں سن کر انسان کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی استدعا ہے کہ عدالت طلال چوہدری کے معاملے میں بھی تحمل کا مظاہرہ کرے۔
وکیلِ استغاثہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ توہینِ عدالت کے مواد پر کبھی اعتراض نہیں اٹھایا گیا لیکن طلال چوہدری نے بیانات میں عدلیہ کو اسکینڈلائز کیا۔ طلال چوہدری نے اپنے بیانات سے کبھی انکار نہیں کیا۔ آرٹیکل 19 توہین آمیز تقاریروں کی اجازت نہیں دیتا۔ طلال چوہدری نے کسی مرحلے پر معذرت یا معافی نہیں مانگی۔ آرٹیکل 176 کے تحت چیف جسٹس اور عدالتِ عظمی کے ججز کو عدالت شمار کیا جاتا ہے۔
دلائل سننے کے بعد عدالت نے طلال چوہدری کے خلاف توہینِ عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
کامران مُرتضیٰ نے فیصلے کو الیکشن کے بعد تک ملتوی کرنے کی استدعا کی جس پر جسٹس گلزار نے جواب دیا کہ ہم نے فیصلے کی تاریخ نہیں دی۔ تاریخ کے بارے میں بعد میں بتا دیا جائے گا۔
عدالت نے طلال چوہدری کو فیصلے کے روز عدالت میں حاضری یقینی بنانے کا حکم بھی جاری کیا ہے۔
سپریم کورٹ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں دانیال عزیز اور نہال ہاشمی کو توہینِ عدالت کیس میں پہلے ہی سزائیں سناچکی ہے جس کے باعث وہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہیں رہے ہیں۔