واشنگٹن —
شام میں حکومت اور باغیوں نے ایک دوسرے پر اس مبینہ کیمیائی حملے کے الزامات عائد کیے ہیں جن میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق کم از کم 25 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے وزیرِاطلاعات نے دعویٰ کیا ہے کہ باغیوں کی جانب سے فائر کیا جانے والا کیمیائی مواد سے بھرا راکٹ شمالی شہر حلب کے نزدیک گرا جس کے نتیجے میں 16 افراد ہلاک اور 86 زخمی ہوئے ہیں۔
شام کے سرکاری ٹی وی اسٹیشن نے بعد ازاں بتایا کہ حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 25 ہوگئی ہے۔
مغربی ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں نے تاحال اس حملے کی تصدیق نہیں کی ہے لیکن شامی حکومت کے اہم ترین اتحادی روس نے اس حملے کی ذمہ داری باغیوں پر عائد کی ہے۔
روس کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں "اس حقیقت پر شدید تشویش ظاہرکی گئی ہے کہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار باغیوں کے ہاتھ لگ رہے ہیں"۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسا ہونے کی صورت میں شام کی صورتِ حال مزید خراب ہوگی اور ملک میں جاری کشمکش میں اضافہ ہوجائے گا۔
باور کیا جاتا ہے کہ صدر بشار الاسد کی حکومت کے پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہیں لیکن باغیوں کے پاس ان ہتھیاروں کی موجودگی کا اس سے قبل کوئی دعویٰ سامنے نہیں آیا تھا۔
دوسری جانب اسد حکومت سے لڑنے والے باغیوں کے ایک سرکردہ کمانڈر اور حلب میں باغی فوجی کونسل کے ترجمان قاسم سعد الدین نے حکومتی الزام کی تردید کرتے ہوئ کہا ہے کہ کیمیائی حملہ اسد حکومت کی حامی افواج کی جانب سے کیا گیا۔
شام کے سرکاری ٹی وی نے اسپتال میں زیرِ علاج حملے سے متاثر ہونے والوں کی ایک ویڈیو بھی نشر کی ہے جس میں ان کے جسموں پر کوئی زخم نہیں لیکن زیرِ علاج افراد کا کہنا ہے کہ انہیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے۔
سرکاری ٹی وی کی رپورٹ میں دکھائے جانے والے اسپتال کے ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ حملے میں "فاسفورس یا کوئی زہر" استعمال کیا گیا تھا۔
شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے وزیرِاطلاعات نے دعویٰ کیا ہے کہ باغیوں کی جانب سے فائر کیا جانے والا کیمیائی مواد سے بھرا راکٹ شمالی شہر حلب کے نزدیک گرا جس کے نتیجے میں 16 افراد ہلاک اور 86 زخمی ہوئے ہیں۔
شام کے سرکاری ٹی وی اسٹیشن نے بعد ازاں بتایا کہ حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 25 ہوگئی ہے۔
مغربی ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں نے تاحال اس حملے کی تصدیق نہیں کی ہے لیکن شامی حکومت کے اہم ترین اتحادی روس نے اس حملے کی ذمہ داری باغیوں پر عائد کی ہے۔
روس کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں "اس حقیقت پر شدید تشویش ظاہرکی گئی ہے کہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار باغیوں کے ہاتھ لگ رہے ہیں"۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسا ہونے کی صورت میں شام کی صورتِ حال مزید خراب ہوگی اور ملک میں جاری کشمکش میں اضافہ ہوجائے گا۔
باور کیا جاتا ہے کہ صدر بشار الاسد کی حکومت کے پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہیں لیکن باغیوں کے پاس ان ہتھیاروں کی موجودگی کا اس سے قبل کوئی دعویٰ سامنے نہیں آیا تھا۔
دوسری جانب اسد حکومت سے لڑنے والے باغیوں کے ایک سرکردہ کمانڈر اور حلب میں باغی فوجی کونسل کے ترجمان قاسم سعد الدین نے حکومتی الزام کی تردید کرتے ہوئ کہا ہے کہ کیمیائی حملہ اسد حکومت کی حامی افواج کی جانب سے کیا گیا۔
شام کے سرکاری ٹی وی نے اسپتال میں زیرِ علاج حملے سے متاثر ہونے والوں کی ایک ویڈیو بھی نشر کی ہے جس میں ان کے جسموں پر کوئی زخم نہیں لیکن زیرِ علاج افراد کا کہنا ہے کہ انہیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے۔
سرکاری ٹی وی کی رپورٹ میں دکھائے جانے والے اسپتال کے ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ حملے میں "فاسفورس یا کوئی زہر" استعمال کیا گیا تھا۔