اس دور کو گزرے زیادہ وقت نہیں ہوا جب ایک 'اچھی' اور 'کامیاب' لڑکی اسے سمجھا جاتا تھا جو گھریلو کام کاج میں ماہر ہو، بحث کرنے کے بجائے گھر کے مردوں اور بڑوں کے خیالات اور فیصلوں سے اتفاق کرے۔ شادی کے بعد شوہر، سسرال اور بچوں کی بہترین دیکھ بھال کرے اور شادی سے پہلے ان سب کاموں کی تیاری۔
اب حالات خاصے بدل چکے ہیں۔ آج جب لڑکی گھر سے تعلیم حاصل کرنے نکلتی ہے تو اس کی آنکھوں میں اپنا کرئیر بنانے کے خواب بھی ہوتے ہیں۔ جب وہ پیشہ ورانہ زندگی میں اپنا مقام بناتی ہے تو والدین کا سر فخر سے اونچا ہوتا ہے، دوست اور احباب اسے ستائشی نظروں سے دیکھتے ہیں، اس کے فیصلوں کو معتبر مانا جاتا ہے۔
مگر یہ سب بھی اسے لوگوں کی چبھتی نظروں سے بچانے کے لیے بعض اوقات کافی نہیں ہوتا۔ عورت گھر بیٹھے تو ’بیکار‘، باہر کام کرے تو 'گھر اور بچے نظر انداز کر رہی ہے' جیسے طعنے اس کا استقبال کرتے ہیں۔
جب یہی عورت ورک-لائف بیلنس کی الجھنوں میں پھنس کر اپنے گھر،خاندان اور بچوں کو اپنے کام پر فوقیت دیتے ہوئےملازمت ترک کرنے کا ارادہ کرتی ہے تو مزید الجھ جاتی ہے۔اور اسے اس الجھن میں ڈالنے والے پرائے نہیں بلکہ اکثر اس کے اپنے ہوتے ہیں۔
کلینکل سائیکولوجسٹ اور تھیراپسٹ ڈاکٹر کنول قدیر کہتی ہیں کہ 'میں تھیراپسٹ بھی ہوں, وورکنگ وومن بھی اور ماں بھی۔ میرے نزدیک ایک عورت کا اپنا کیرئیر چھوڑ کراپنے رشتے نبھانے کا یا ایک ماں کا بھرپور کردار ادا کرنے کا ارادہ ایک بہت بڑی قربانی ہے جو قابل ستائش ہے نہ کہ قابل تنقید'. وہ کہتی ہیں مذہب ہو یامعاشرہ ، اس کا قدرتی تقاضہ ہم ماں کی ذمہ داری ہی زیادہ دیکھتے ہیں ۔جو بچوں کی پرورش بھی کرتی ہے اور دیکھ بھال اور تربیت بھی۔
ڈاکٹر کنول کے مطابق گو کہ ہمارا معاشرہ کافی آگے بڑھ چکا ہے اور پہلے اگر گھر کے کاموں اور بچوں کی دیکھ بھال کی زمہ داری میں مردوں کا کردار صفر ہوتا تھا ، وہ شاید بہتر ہوکے تیس فیصد ہوگیا ہو لیکن گھر کے کام اور بچوں کی نگہداشت کا بڑا بوجھ اب بھی عورت کے ہی کاندھوں پہ ہے۔ گھر دیکھنا، چھوٹے بچوں کے ساتھ رات بھر جاگنا اور اگلے دن دفتر میں اپنا سو فیصد دینا، یہ ممکن ہی نہیں۔
"بچپن سے سب کی یہ توقعات ہوتی ہیں کہ اچھا نہیں بہت اچھا پڑھیں، بہترین ڈگری حاصل کریں۔اس کے بعد بہترین ملازمت کا حصول بھی ضروری ہے۔ صرف ملازمت کافی نہیں، ہم سے بہتر اور زیادہ کمانے والا شوہر بھی ہمارے لیے ڈھونڈا جائے گا۔ اب شادی ہوگئی، بچے بھی ہونے چاہئیں۔ خود کو دیکھیں، گھر دیکھیں، بچے دیکھیں یا کام؟ بچوں کو تو نہیں چھوڑ سکتے، کام چھوڑ دیں تو پھر نئی مصیبت کہ اتنا پڑھا لکھا اس لیے تھا کہ گھر بیٹھ جاؤ؟ لوگ آخر چاہتے کیا ہیں؟"
یہ کہنا ہے ڈاکٹر فرح فاروق کا جو پاکستان کی ٹی وی انڈسٹری کا حصہ رہ چکی ہیں۔ فرح کہتی ہیں پہلی بار جب ڈاکٹری کی ڈگری لینے کے بعدانہوں نے ٹی وی میں کرئیر بنایا تو لوگوں نے کہا ڈگری ضائع کی مگر وہ اپنے کام سے مطمئن تھیں اس لیے ایسی باتوں پہ کان نہ دھرا۔ لیکن دوسری بیٹی کی پیدائش کے بعد جب محسوس ہوا کہ وہ بچوں کو ٹائم نہیں دے پا رہیں تو جاب چھوڑ دی۔مگر اس بار دوستوں اور پرانے ساتھیوں نے سکون برباد کردیا کہ فلاں فلاں عورت بھی تو جاب کے ساتھ گھر دیکھتی ہے پھر تم کیوں نہیں؟ اب فرح ایسے دوستوں سے کترانے لگی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے ہیں کہ ہرانسان کی صورتحال مختلف ہوتی ہے۔
فرح کا کہنا ہے کہ گھر والوں نے بہت ساتھ دیا مگر کبھی کبھی والدہ بھی کہتی ہیں کہ بہت لمبا بریک ہوگیا اور اس پر وہ سوچنے پہ مجبور ہوجاتی ہیں کہ شاید انہیں واقعی پھر سے کچھ کرنا چاہیے۔
والدین چونکہ اپنی اولاد کو اچھی تعلیم دلانے کے لیے بہت محنت کرتے ہیں اس لیے وہ اکثر ایسے فیصلوں سے مایوس نظر آتے ہیں۔ یہ کہنا ہے شہیرہ صدیقی کا جنہوں نے شادی کے بعد بینک کی نوکری چھوڑی تو ان کے والد اس فیصلے سے خوش نہیں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک بار جب وہ کسی تقریب میں اپنے فیکلٹی ڈین سے ملیں اور ان کے استفسار پہ بتایا کہ اب وہ 'سٹے ایٹ ہوم موم' ہیں تو ڈین نے تضحیک بھرے لہجے میں کہا کہ پھر تعلیم کیوں حاصل کی؟ شہیرہ کچھ دنوں تک اسی سوچ میں گم رہیں کہ شاید واقعی انہوں نے غلط فیصلہ کیا۔ لیکن پھر وہ یہی سوچ کے مطمئن ہیں کہ بینک میں کام تو بہت لوگ کر لیں گے لیکن ان کے تین بچوں کی دیکھ بھال کے لیے تو صرف وہی ہیں۔
شہیرہ کی طرح تطہیرزہرا بھی کراچی میں بینکر ہی تھیں لیکن ان کا معاملہ کچھ الگ ہے۔ ہوا یوں کہ تطہیر بیاہ کے اندرون سندھ منتقل ہوئیں توانہیں پتہ چلا کہ وہاں خواتین کے نوکری کرنے کومالی مجبوری سے جوڑا جاتا ہے اورپھر یہ خاندان کی عزت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ تطہیر کا کہنا ہے 'گھر والے اور دوست تو میرا سہارا ہیں۔۔۔ میں چونکہ شادی سے پہلے گھر چلانے میں والد کی مدد کرتی تھی، گھر کے تمام مالی معاملات میرے ہی ہاتھ میں تھے اس لیے شادی کے بعد مالی طور پر آزاد نہ رہنا میرے لئے آسان نہیں تھا'۔
تطہیر نے برسوں کے صبر کرنے کے بعد اب اپنے ہی بچوں کے اسکول میں ملازمت کر لی ہے تاکہ وہ مالی طور پر آزاد رہیں، کام کے اوقات کم ہوں اور گھر کی ذمہ داریاں بھی نبھا سکیں۔
دوسری جانب ندا حسن ہیں جوشادی کے بعد ہزاروں میل دور امریکہ منتقل ہوئیں۔ ندا شکاگو تو چلی گئیں مگر دوستوں کی 'کچھ کرو' کی فرمائش نے سات سمندر پار بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔
ندا انڈس ویلی سکول آف ڈیزائن کی گریجویٹ ہیں اور شادی کے وقت انہیں پاکستان میں ایک بڑے ڈیزائن سٹور کی ملازمت چھوڑنی پڑی۔ امریکہ آنے کے بعد انہوں نے اپنا چھوٹا سا بزنس سیٹ کرنے کی کوشش کی جسے جمانا آسان کام نہیں تھا۔ پھر بچے ہوئے تو پوری توجہ ان پہ مرکوز ہوگئی۔
ان کا کہنا ہے دوستوں کی نیت بے شک بری نا ہو مگر ان کی کہی ہوئی باتیں بے چینی پیدا کر دیتی ہیں۔ 'کچھ کرو' کی یاد دہانی کراتے وقت لوگ چاہتے ہیں کہ بس کچھ بھی کر لو، 'فلاں کو تو بینک میں نوکری مل گئی تم بھی تلاش کرو، لوگ یہ بھی نہیں سوچتے کہ میں ایک آرٹسٹ ہوں بینکر نہیں'۔
ایسا ہی کچھ ہوااسلام آباد میں مقیم مریم علی کیساتھ ۔ مریم جب ڈیڑھ سال کی تھیں تو ان کے والد کا انتقال ہوگیا، مریم کا کہنا ہے کہ اتنی چھوٹی عمر میں ہی باپ کے سائے سے محروم ہوجانے کی وجہ سے ان کی زندگی کافی کٹھن گزری تھی اس لیے جب شادی کے موقعے پر ان سے کہا گیا کہ ملازمت کرنے کی ضرورت نہیں تو انہیں اس بات پر ملال کے بجائے خوشی ہوئی کہ اب ان کا خیال کرنے والا بھی کوئی ہے۔ مریم آج اپنی زندگی سے مطمئن ہیں مگر اکثر دوست انہیں یہ یاد دلاتے ہیں کے وہ گولڈمیڈلسٹ ہیں اور پاکستان کے ایک بہت بڑے ادارے میں کام کر چکی ہیں۔ مریم کو یقین ہے کہ نہ وہ اپنا وقت ابھی برباد کر رہی ہیں نہ کریں گی۔
وہ کہتی ہیں،'ابھی بچے چھوٹے ہیں انہیں میری ضرورت ہے۔ آگے جا کے میں ایک ریسٹورانٹ کھولنا چاہتی ہوں۔ مجھے اندازہ ہے کہ میں اچھا کھانا بناتی ہوں اور میں ملازمت کے بجائے اپنا بزنس شروع کرنے کو ترجیح دونگی'۔
ڈاکٹر کنول قدیر کہتی ہیں کہ نہ کام جاری رکھنے میں کوئی برائی ہے نہ چھوڑنے میں کوئی خامی۔ تاہم عورتیں اپنے لیے جو بھی فیصلہ کریں وہ سوچ سمجھ کے کریں۔ گھر کے کام کرنا قطعاً معیوب بات نہیں مگر یہ ایک ایسا کام ہے جس کی قدر نہیں کی جاتی۔
'جس عورت نے کبھی گھر سے باہر کام نہ کیا ہو اس کی بات الگ ہے مگر جب آپ اس طرز زندگی کو دیکھ چکے ہوں، اس کے بعد دوسری طرف تھوڑا عرصہ گزارنا تو شاید مشکل نہیں ہوتا مگر اسے مستقل اپنا لینے سے آپ نئی ذہنی الجھنوں کا شکار بھی ہو سکتی ہیں'۔
ڈاکٹر کنول قدیر اسے مزید سمجھاتے ہوئے کہتی ہیں کہ گھر کے کاموں میں کوئی آپ کی خدمات کی آئے روز تعریف نہیں کرتا، آپ روزانہ صبح سے شام تک ایک ہی قسم کے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ ایک ہی ماحول میں چار دیواری میں اپنا بیشتر وقت گزارتے ہیں، خود کو روز سنوارنے کا نا وقت ملتا ہے نا کوئی وجہ۔ روز ایک ہی طرح کے کاموں سے آپ کو اپنی زندگی معمولی اور بے رنگ نظر آنے لگتی ہے۔ وقتاً فوقتاً آپ خود ہی اپنی موجودہ زندگی کا موازنہ اپنے گزرے وقت سے کررہے ہوتے ہیں، پھر اس پر اگر کوئی آپ کو 'کچھ کرو' کا مفت مشورہ دے تو وہ آپ کو ایسی سوچ دے جاتا ہے جو آپ کا اگلا گھنٹہ،ایک دن یا ایک ہفتہ بھی خراب کرسکتی ہے۔
ڈاکٹر کنول یہ بات بھی جانتی ہیں کہ ہر عورت کی صورتحال مختلف ہوتی ہے اور وہ اپنی کلائنٹس کو اکثر مشورہ دیتی ہیں اگر وہ اپنی ملازمت کے اوقات کار کم کر سکتی ہیں تو کرلیں، گھر سے کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر سکتی ہیں تو وہ کریں ورنہ کوئی ایسا شوق یا ہابی اپنائیں جس سے ان کو خوشی ملے۔ ایسا کام جو وہ صرف اپنے لیے کریں۔
ڈاکٹر فرح فاروق مزید تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ شہیرہ اپنا کچھ وقت پولیٹکل ایکٹوزم میں گزارتی ہیں، تطہیر اپنا پیشہ تبدیل کرکے ٹیچر بن چکی ہیں، ندا حسن فارغ اوقات میں تصاویر پینٹ کرتی ہیں اور انہیں بہت اچھا لگتا ہے جب ان کے گھر آئے مہمان ان کے فن کی تعریف کرتے ہیں۔ جبکہ مریم علی جنہیں اندازہ تھا کہ ان کی آواز اچھی ہے، گٹار بجانا بھی سیکھ چکی ہیں اور اب نجی محفلوں میں ان کے دوست رشتہ دار ان کیساتھ سر میں سر ملاتے نظرآتے ہیں۔
دوست رشتہ دار اگرواقعی کسی ایسی خاتون کی مدد کرنا چاہتے ہیں جس میں انہیں ذہانت اور ہنر نظر آتا ہے تو 'کچھ کرو' کی گردان کے بجائے ان کی صورت حال کو سمجھنا اور انہیں نئے راستے دکھانا شاید بہتر ہوگا۔
ورنہ 'جیو اور جینے دو' سننے میں تو کانوں کو بھلا محسوس ہوتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو جو لوگ اسے اپنی زندگی کا بھی حصہ بنا لیں۔