گزشتہ کچھ ماہ کے دوران افغانستان میں بین الاقوامی فوجیوں اور افغان شہریوں کے علاوہ افغان عہدے داروں کو بھی حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ امریکہ کے خصوصی امریکی مندوب برائے افغانستان اور پاکستان مارک گراسمین کا کہنا ہے کہ انتہا پسند اب قتل و غارت کا یہ طریقہ کار اس لیے اپنا رہے ہیں کیونکہ پچھلے سال امریکہ کی فوجی قوت میں وقتی اضافہ لانے کی صدر اوباما کی حکمت عملی اپنے مقاصد میں کامیاب رہی۔
انہوں نے یہ بات وائس آف امریکہ کےساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہی۔
ان کا کہناتھا کہ طالبان افغان عہدے داروں کے قتل کے ذریعے اس لیے جوابی حملے کر نے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ان کی فوجی قوت میں کمی آئی ہے۔
امریکی سفارت کار گراسمین کے مطابق افغانستان میں سیکیورٹی کے نظام کی بین الاقوامی فوجوں سے افغان سیکیورٹی فورسز کو منتقلی کا عمل جاری رہے گا اور انہیں امید ہے کہ اس سال نومبر میں ترکی کے شہر استنبول میں ہونے والی علاقائی کانفرنس میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک امن اور استحکام کے لیے افغانستان میں کیے جانے والے اقدامات کی حمایت کریں گے۔
ان کا کہناتھا کہ انہیں امید ہے کہ پاکستان بھی نہ صرف استنبول مذاکرات میں، بلکہ اس کے ایک ماہ بعد جرمنی کے شہر بون میں ہونے والی کانفرنس میں بھی افغانستان میں مفاہمت کے عمل کی حمایت کے اپنے موقف سے نہیں ہٹے گا۔
کراسمین نے مزید کہا کہ پاکستانی حکام نے 16 اپریل کو جب کابل کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے افغانستان میں مفاہمت کے عمل کی حمایت کی تھی۔ اور اس گفتگو کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستان ، افغانستان اور امریکہ کے نمائندوں کا ا ایک گروپ بھی تجویز کیا تھا جو مل کر مفاہمت کے عمل پر بات کرے۔ ہم اب تک 4 مرتبہ ملاقات کر چکے ہیں اور مجھے امید ہے کہ اگلے کچھ ہفتوں میں نیویارک میں ہم پھر ملیں گے۔ سو مجھے امید ہے کہ استنبول اور بون دنوں جگہ پاکستان مفاہمت کے ایک ایسے عمل کی حمایت جاری رکھے گا جو افغان عوام کی قیادت اور ان کے اختیار میں ہو۔
امریکی عہدے داروں نے جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون بڑھانے کی اہمیت پر بھی بات کی ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ ملاقاتیں جنوبی ایشیا میں ایک ایسے اقتصادی تعاون کی جانب مثبت قدم ثابت ہوں گی، جس سے خطے میں تجارت اور لوگوں کی بلا رکاوٹ آمد و رفت یقینی بنانے میں مدد ملےگی ۔