ویسے تو پاکستان میں غیر ملکی سفارتکار اونچی فصیلوں والے انتہائی محفوظ علاقے میں رہتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں تعینات جرمنی کے سفیر کچھ مختلف انداز میں رہتے ہیں۔ وہ پورے میں ملگ میں گھومتے پھرتے ہیں لوگوں سے ملتے ہیں۔ ٹوئٹر پر اپنے فالورز کو ملاقات کے لیے کبھی کبھار گھر پر بھی مدعو کر لیتے ہیں۔
جرمن سفیر مارٹن کابلر کو اگر سوشل میڈیا سٹار کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ ٹوئٹر پر اُن کے سوا لاکھ سے زیادہ فالور ہیں اور وہ ٹوئٹر پر بہت سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔
مارٹن عموماً سوشل میڈیا پر سماجی مسائل کی نشاہندہی کرتے ہیں اور ماحولیاتی تبدیلی، پانی کی کمی، پلاسٹک کا استعمال روکنے جیسے مضوعات پر کچھ اچھا کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن گذشتہ چند دونوں کے دوران انھوں نے سیاسی معاملات پر بھی اپنے رائے کا اظہار کیا۔
بدھ کے روز مارٹن نے جرمنی کے تعاون سے خیبر پختونخوا کے ایک دیہات میں بنائی گئی سڑک کی تصویر پوسٹ کی اور لکھا کہ’ ازخیل بالا کی اس سڑک کو دیکھیں 12 انچ کی تہہ والی اس سڑک کی فی کلومیٹر لاگت 40 لاکھ روپے ہے اور خیبر پختونخوا کی حکومت نے چھ انچ تہہ والی ایسی ایک سٹرک ایک کروڑ روپے فی کلومیٹر کی لاگت میں بنائی۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟’
اس ٹویٹ پر مارٹن کو کڑی تنقید کا سامنہ کرنا پڑا۔ کیونکہ مارٹن نے اس ٹویٹ میں خیبر پختوانخوا کی حکومت کو بھی ٹیگ کیا تھا تو صوبائی وزیر برائے اطلاعات نے مارٹن کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا۔
خیبر پختوانخوا کے وزارتِ اطلاعات کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک ٹویٹ میں شوکت یوسف زئی کے حوالے سے لکھا گیا کہ ’بالکل آپ کے سوال کا جواب بہت سادہ ہے۔ جو سٹرک آپ نے بنوائی ہے اس کا تعمیراتی معیار نظر نہیں آ رہا ہے اور نہ سڑک کے کنارے سیوریج کا کوئی نظام دکھائی دے رہا ہے۔
ٹوئٹر پر جہاں بہت سے لوگوں نے جرمن سفیر کی ٹویٹ پر صوبائی حکومت سے مختلف سوالات پوچھے وہیں کچھ صارفین نے تو خود ہی اس کی وجہ بھی تلاش کر لی۔ ایک صارف اعجاز نے لکھا کہ ’جواب بہت سادہ ہے دیہات میں رہنے والی ہماری عوام اب ایماندار ہے اور وہ رشوت نہیں لیتی ہے۔‘
صحافی افتخار فردوس نے جرمن سفیر اور خیبر پختونخوا کی حکومت کی نوک جھونک پر لکھا کہ ’لگتا ہے کہ مسٹر کابلر کی ٹویٹ نے چائے کے کپ میں طوفان کھڑا کر دیا ہے۔
ایک صارف فوزیہ یزدانی نے مارٹن کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا کہ ’یہ ٹویٹ اُن کے (مارٹن ) دائرہ کار سے باہر ہے۔ انھوں نے لکھا کہ ’ایک منجھے ہوا سفارتکار زیادہ جانتا ہے کہ اُسے مشکل چیز کو اپنے الفاظ میں کیسے کہنا ہے‘
تجزیہ کاروں اور سوشل میڈیا پر سرگرم افراد کا کہنا ہے کہ مختلف ممالک کے سفیر میزبان ملک کی پالیسوں کے بارے میں کھلے عام گفتگو نہیں کر سکتے اور انھیں سفارتی حدود میں ہی رہنا ہوتا ہے۔
اخبار دی نیوز سے وابستہ صحافی ماریانہ بابر نے لکھا کہ ’میرے خیال میں مارٹن کابلر کو دفترِ خارجہ بلایا جانا چاہیے۔ اُن کی بات سے مکمل طور پر عدم اتفاق نہیں ہے لیکن میزبان ملک کی پالیسیوں پر سفارتکاروں کی اپنی حدود ہوتی ہیں۔