اپنی کتاب ’عرب وائسز‘ میں جیمز زوگبے کہتے ہیں کہ پانچ غلط مفروضوں کی وجہ سے عربوں کے بارے میں امریکیوں کے ذہنوں میں پایا جانے والا تصور مسخ ہو گیا ہے۔ پہلا مفروضہ تو یہ ہے کہ سب عرب ایک جیسے ہوتے ہیں، جب کہ دوسرے مفروضے کے مطابق عرب دنیا نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ جیمز زوگبے کے بھائی جان زوگبے کی سروے کرنے والی تنظیم نے مغرب میں مراکش سے لے کر مشرق میں ابو ظہبی تک چھ عرب ملکوں میں سروے کیے۔ نتائج سے پتہ چلا کہ ان ملکوں کی ثقافتیں بڑی رنگا رنگ اور متنوع ہیں اور ان کےاندر مختلف ذیلی کلچر موجود ہیں۔
تا ہم، جیمز زوگبے کہتے ہیں کہ ان ملکوں میں یہ احساس بھی موجود ہے کہ وہ ایک عظیم ترعرب دنیا کا حصہ ہیں۔’’مراکش کا کلچر لبنان کے کلچر سے مختلف ہے۔ سعودی عرب اور مصر کے کلچر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہمیں روزمرہ زندگی اور ہر ملک کی انفرادی خصوصیات کی بڑی مختلف تصویر ملتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس پورے علاقے میں کچھ باتیں مشترک ہیں جو ایک مشترکہ زبان اور مشترکہ احساسات سے پیدا ہوتی ہیں۔ روئے زمین پر دوسرے لوگوں کی طرح عربوں میں بھی بڑا تنوع پایا جاتا ہے لیکن جب عراق پر حملہ ہوا، تو وہ سب ایک ہو گئے، جب فلسطین اذیت میں مبتلا ہوتا ہے، تو وہ ایک ہو جاتے ہیں، یک زبان ہو کر بولتے ہیں، اور ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو ان سب کے لیے ایک ہی معنی رکھتے ہیں۔‘‘
تیسرے غلط مفروضے کے لیے زوگبے امریکی نیوز میڈیا کو الزام دیتے ہیں جس نے یہ تاثر عام کیا ہے کہ عرب، امریکہ سے اور اس کی اقدار اور طرزِ زندگی سے نفرت کرتے ہیں۔’’
ہمیں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ عرب رات کو سونے جاتے ہیں تو امریکہ سے نفرت کی آگ میں جل رہے ہوتے ہیں، صبح اسرائیل سے نفرت کے خیالات لے کر جاگتے ہیں، اور پھر وہ ٹیلیویژن پر خبریں دیکھتے ہیں جن سے نفرت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ ہم نے جو سروے کیے ان سے پتہ چلا کہ انہیں پہلی فکر اپنے بچوں کی، علاج معالجے کی اور تعلیم کی ہوتی ہے۔ وہ سوتے وقت ساری دنیا کے لوگوں کی طرح اپنے روزگار کی فکر میں پریشان ہوتے ہیں اور صبح اٹھتے ہیں تو اپنے گھرانے کی بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں۔ دن کے وقت وہ ٹیلیویژن ضرور دیکھتے ہیں، لیکن بیشتر وقت وہ فلمیں اور ڈرامے دیکھتے ہیں۔‘‘
جیمز زوگبے چوتھے مفروضے کو بھی غلط قرار دیتے ہیں کہ بیشتر عرب مذہبی جنونی ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ غلط تاثر ہالی وڈ کی فلموں سے پھیلا ہے جن میں دکھایا جاتا ہے کہ عرب یا تو دہشت گرد ہوتے ہیں یا تیل کی دولت سے مالا مال بد عنوان ارب پتی۔ ٹھیک ہے کہ عربوں میں دہشت گرد بھی ہیں اور بعض عرب شیخ تیل کی دولت سے بہت سی غلط حرکتیں کرتے ہیں۔ ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ اگر ہم ٹیلیویژن پر یہ دکھانے لگیں کہ صرف سیاہ فام لوگ سڑکوں پر جرائم کرتے ہیں اور سب یہودی عیار کاروباری لوگ ہوتے ہیں، تو عام لوگوں کے ذہن میں ان کا یہی تاثر قائم ہو جائے گا۔ ہمیں منفی تاثر میں توازن پیدا کرنے کے لیے عرب دنیا کے کچھ حقیقی کردار بھی پیش کرنے چاہئیں تا کہ لوگوں کے ذہن میں یہ تاثر پیدا ہو کہ تمام عرب ایک جیسے نہیں ہوتے۔
عرب وائسز میں جس پانچویں مفروضے کو چیلنج کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ عرب اصلاحات کو مسترد کرتے ہیں اور جب تک مغربی ممالک انھیں مجبور نہ کریں، وہ کبھی تبدیل نہیں ہوں گے۔ زوگبے نے پولنگ کے اعداد و شمار سے ثابت کیا ہے کہ عرب دنیا سماجی اور سیاسی تبدیلی چاہتی ہے لیکن اسے یہ بات ناگوار ہے کہ اصلاحات اوپر سے مسلط کی جائیں۔ عرب اپنی اصلاحات خود کرنے کے آرزو مند ہیں۔
زوگبے کہتے ہیں کہ امریکی سیاستدانوں کو ان امریکیوں سے سبق لینا چاہیئے جو عرب دنیا میں کاروبار کرتے ہیں ۔ ’’کاروباری لوگ سودے کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے کے لیے کہ دوسرا فریق کیا چاہتا ہے، دوسرے کی بات سنتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جب تک انھیں مارکیٹ کا علم نہ ہو، وہ اپنی اشیاء فروخت نہیں کر سکتے۔ اگر ہم اپنی سیاست اس طرح کریں جس طرح ہم اپنا کاروبار کرتے ہیں، تو ہم امن قائم کرنے اور ساری دنیا میں دوست بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے بہترین عوامی سفارتکار اس علاقے میں ہمارے امریکی بزنس مین ہیں کیوں کہ وہ ہر روز امریکی اشیاء فروخت کرتے ہیں۔ لوگ امریکی مصنوعات پسند کرتے ہیں، وہ ہماری اقدار پسند کرتے ہیں، وہ ہمارا کلچر پسند کرتے ہیں، وہ ہمارا طرزِ زندگی پسند کرتے ہیں، لیکن ہم ان پر سیاسی دباؤ ڈالتے رہتے ہیں۔‘‘
جیمز زوگبے توجہ دلاتے ہیں کہ امریکی نظام ِ تعلیم میں عربوں اور مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں کچھ نہیں سکھایا جاتا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس خلا کو پُر کرنا، اور امریکہ کے بارے میں غلط تصورات کو ختم کرنا ضروری ہے۔ صرف اسی صورت میں امریکہ صحیح معنوں میں عرب عوام کے دل جیتنے کی اُمید کر سکتا ہے۔