امریکہ اور ترکی کے تعلقات کچھ عرصے سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں لیکن دونوں نیٹو اتحادیوں نے ابھی تک یہ نہیں کہا کہ ان کے درمیان کوئی حقیقی دشمنی ہے۔ ترک صدر اردوان امریکہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ان کے سٹرٹیجک شراکت دار نے ترکی کے المونیم اور اسٹیل پر محصولات میں دو گنا اضافہ کے ان کے پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے۔ جب کہ دوسری جانب جمعرات کے روز صدر ٹرمپ نے کہا کہ ترکی نے خود کو ایک اچھا دوست ثابت نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ ان کے پاس ہمارا ایک عظیم مسیحی پادری موجود ہے۔ وہ بہت معصوم شخص ہے۔
ٹرمپ نے کسی وضاحت کے بغیر کہا کہ امریکہ اردوان کی جانب سے ایک شخص کی رہائی چاہتا ہے اور اس توقع کا اظہار کیا اردوان اس کا موزوں طور پر جواب دیں گے۔
صدر ٹرمپ نے کہ کہا کہ ہمارے پاس ایک شخص ہے جسے وہ چاہتے ہیں کہ نکال دیا جائے۔ انہیں کسی شخص کو کسی جگہ سے نکالنے کے لیے مدد کی ضرورت تھی۔ وہ اس طرح سامنے آئے ۔ وہ ہمارے ایک عظیم پادری کو قید میں رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ جائز نہیں ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے۔
امریکی وزیر خزانہ منوچن نے کہا ہے کہ اگر ترکی پادری کو رہا نہیں کرتا تو ان کا محکمہ ترکی پر مزید پابندیاں لگانے کے لیے تیار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ہم منصبوں پر بالکل واضح ہیں۔ دونوں یعنی مائیک پومپیو اور میں خود بھی پادری کی رہائی چاہتے ہیں۔ ہم نے ان کی کابینہ کے کئی ارکان پر پابندیاں لگا دی ہیں۔ اگر انہوں نے اسے جلد رہا نہ کیا تو ہم نے مزید پابندیوں کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پادری کا معاملہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک وسیع تر اختلاف کا حصہ ہے۔ اردوان بڑی برہمی کے ساتھ عراق اور شام میں داعش کے خلاف لڑنے والے کردوں کے لیے امریکی حمایت کی مخالفت کر چکے ہیں۔ وہ امریکہ کی جانب سے ترک مسلم اسکالر کی ملک بدری سے انکار پر بھی ناراض ہیں ۔ یہ اسکالر اردوان کے مخالف ہیں ۔ امریکہ کے انسانی حقوق کے کچھ گروپ اور کچھ پالیسی ساز اردوان کے بڑھتے ہوئے آمرانہ انداز سے مایوس ہیں۔
اردوان نے اپنے حامیوں کو اس بارے میں قائل کر لیا ہے کہ غیر ملکی قوتیں ایک طاقت ور مسلم ریاست کی اہمیت گھٹانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر خوراک، ایندھن اور دوسری ضروری اشیا کی قیمتیں عام ترک شہریوں کی پہنچ سے اونچی رہیں تو اس طرح کی شعلہ بیانیوں کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔